کتاب: روشنی - صفحہ 195
دیے ہیں اور کتاب و سنت کی نصوص سے غلط استدلال کرکے بدعت کو شرعی رنگ دینے اور مطلوب بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کو تصوف کا امام مانا جاتا ہے، بعض لوگوں نے ان کو امام المجددین اور حکیم الامت کے القاب بھی دیے ہیں۔ انھوں نے ایک صحیح حدیث سے دین میں ایجاد یا بدعت پر جو استدلال کیا ہے وہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، میں پہلے وہ حدیث اور اس کا ترجمہ پیش کردیتا ہوں، پھر اس سے ان کے استدلال اور اس کی نکارت بیان کروں گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہتے ہیں: ((سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلي الله عليه وسلم یُہِلُّ مُلَبِّدًا یَقُولُ: ’’لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ‘‘ لَا یَزِیدُ عَلَی ہَؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ۔))[1] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو، اپنے بالوں کو چپکائے ہوئے بآواز بلند تلبیہ کہتے ہوئے سنا ہے، آپ فرمارہے تھے: میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں، یقینا تعریف صرف تیرے ہی لیے ہے، نعمت تیری ہی ہے اور ملک و اقتدار کا مالک صرف تو ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘‘ آپ ان کلمات سے زیادہ نہیں کہتے تھے۔‘‘ صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ: اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی کلماتِ تلبیہ کے ساتھ تلبیہ پڑھتے تھے اور (یہ بھی) کہتے تھے: ((لبیک اللہم لبیک، لبیک لبیک وسعدیک والخیر فی یدیک، لبیک والرغباء الیک والعمل۔)) (ایضًا)
[1] صحیح بخاری ۵۹۱۵، صحیح مسلم : ۲۸۱۴.