کتاب: روشنی - صفحہ 194
اصول و فروع کی تکمیل فرمادی ہے وہیں یہ امر بھی واضح ہوگیا ہے کہ اس دین اسلام پر ایمان لانے اور اس کو اپنا طریقہ عبادت و بندگی اور منہج حیات بنانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی کے احکام کی پابندی کی جائے اور اس سے باہر کی ہر چیز کو اگرچہ وہ بظاہر کتنی ہی خوشنما لگے، ٹھکرادیا جائے۔
بدعت جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت صریح اور واضح لفظوں میں گمراہی قرار دیا ہے وہ درحقیقت شریعت سازی ہے، کیونکہ بدعت پر عمل کرنے والا اور اس کی ترویج کرنے والا زبان قال سے نہ سہی، زبان حال سے یہ اعلان کرتا ہے کہ کتاب و سنت کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جو دین دے کر گئے ہیں وہ ناقص ہے اور اس میں کمی بیشی کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ بسا اوقات ضروری ہے، خاص طور پر اس دین کے جس شعبے کا تعلق تقرب الی اللہ، تزکیۂ نفس اور ماسوی اللہ کے خیال سے دل و دماغ کو پاک کرلینے اور صرف توجہ الی اللہ پر ذہن و دماغ کو مرکوز کرلینے سے ہے اس میں اپنے ذوق و پسند اور صوابدید کے مطابق اضافہ کرلینا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ عصر نبوی سے دوری کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والے دلوں کے روگ کے علاج کے لیے ضروری ہے۔
اوپر جس دعویٰ کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اس امت سے نسبت کا دعویٰ کرنے والا ایک بہت بڑا طبقہ اس پر عمل پیرا بھی ہے اور اس کا داعی بھی ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طبقہ کی ظاہری دین داری حد درجہ مسحور کن ہے اور مسلمانوں کی اکثریت کے کتاب و سنت کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے ناواقفیت کی وجہ سے مذکورہ طبقہ ہی اسلام کا حقیقی نمائندہ تصور کیا جارہا ہے اور اس کی سیرت و کردار اور اقوال و ارشادات کی پیروی ہی کو اصل اور صحیح دین داری اور نجات اخروی کا ذریعہ سمجھا جارہا ہے۔
مذکورہ طبقہ مختلف ناموں اور القاب سے معروف ہے، اس کو عارفین باللہ، صلحائے امت، زہاد و متوکلین اور صوفیا وغیرہ سے یاد کیا جاتا ہے۔
مذکورہ طبقہ نے دین میں بدعت کو مستحسن اور پسندیدہ قرار دینے کے لیے بڑے مغالطے