کتاب: روشنی - صفحہ 192
﴿ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ﴾ (البینہ:۸) ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے۔‘‘ ۲۳ سال کی لگاتار محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے دین حق کے غلبہ و استحکام کا وعدہ پورا فرمایا اور حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں سورۃ المائدہ کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ نازل فرمائی اور اعلان فرمایا کہ اسلام کی شکل میں اس کے دین کے غلبہ و استحکام کی راہ میں مزاحمت کرنے والے اس بات سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ لوگوں کو اس دین سے باز رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں دین کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ یہ دین جس کا نام اسلام ہے اصول و عقائد اور ان عقائد پر مبنی اعمال کے اعتبار سے ایک مکمل نظام اور دستور ہے اور اس میں زندگی کے جملہ مسائل کا اصولاً یا تفصیلاً حل موجود ہے بایں معنی کہ ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حال میں نہ اس سے باہر جانے کی ضرورت ہے اور نہ اس کے باہر سے کچھ لینے کی اجازت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں اعلان فرمادیا ہے کہ: ((من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔))[1] ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرلی جو اس کی نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ اس بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک دوسری حدیث میں زیادہ تفصیل سے بیان فرمادیا ہے: ((علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی، تمسکوا بہا وعضوا علیہا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور، فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔)) [2]
[1] صحیح بخاری ۲۶۹۷، صحیح مسلم :۱۷۱۸. [2] مسند امام احمد : ۱۷۲۷۴، ۱۷۲۷۵۔ ابوداؤد : ۴۶۰۷۔ ترمذی: ۲۶۷۸۔ ابن ماجہ:۴۲.