کتاب: روشنی - صفحہ 191
تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور دین کی حیثیت سے تمہارے لیے اسلام کو پسند کرلیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی اپنے رسولوں کے حوالہ سے ہمیشہ سے یہ سنت رہی ہے کہ اس نے اپنے جس بندے کو منصب رسالت پر سرفراز فرمایا، اس کو رسالت کی تکمیل تک اس دنیا میں باقی رکھا اور جوں ہی اس نے اس الٰہی منصب کے فرائض پورے کرلیے اس کو اس دنیا سے اٹھالیا۔
اس تناظر میں جب اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی وہ ذمہ داریاں اور فرائض کماحقہ ادا کرلیے جن کا ذکر سورۃ البقرہ کی ایک سو انتیسویں آیت میں آیا ہے اور جو آیت درحقیقت اس دعا کا ایک حصہ ہے جو حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے مرکز توحید، کعبہ مشرفہ کی تعمیل مکمل ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے کی تھی اور اس سے یہ درخواست کی تھی کہ:
﴿ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾ (البقرہ:۱۲۹)
’’اے ہمارے پروردگار! ان کے اندر انہی میں سے ایک ایسا رسول اٹھا جو انہیں تیری آیتیں سنائے، انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے، درحقیقت تو ہی غالب اور صاحب حکمت ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے ان جلیل القدر اور مقدس معماروں کی دعا قبول فرمائی اور قبیلہ قریش کی معزز شاخ بنو ہاشم کے اندر سے اپنا آخری نبی اور رسول مبعوث فرمایا جس نے اس کی آیتیں لوگوں کو سنائیں، ان کو کتاب (قرآن) اور حکمت (حدیث) کی تعلیم دی اور اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور اوراد و اذکار کے ذریعہ ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ پاک و صاف ہوگئے، اور ان کو اللہ تعالیٰ کا ایسا تقرب حاصل ہوگیا کہ اس نے ان کے بارے میں اعلان فرمادیا کہ: