کتاب: روشنی - صفحہ 190
’’جو کوئی اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کرے گا وہ مردود ہوگی۔‘‘ لیکن میں نے تصوف کی ایک کتاب (تذکرہ حاجی امداد اللہ) میں صوفیائے چشتیہ کی معمول بہ ’’بارہ تسبیحوں‘‘ کے ذکر کے بعد مصنف کے قلم سے مرقوم ایک عبارت دیکھی ہے جو یا تو صحیح نہیں ہے یا میری فہم صحیح نہیں ہے، وہ عبارت حسب ذیل ہے: ’’اُن اذکار میں جو صوفیہ کے یہاں معمول و مروج ہیں اور عام اذکار و اوراد میں ایک لطیف فرق ہے، تلاوت قرآن پاک، اذکار و ادعیہ مسنونہ و ماثورہ، استغفار، درود شریف وغیرہ ہر مسلمان بغیر کسی پیر کی رہنمائی کے کرسکتا ہے، احادیث شریف میں جو اذکار و اوراد مذکور ہیں وہ عمومی ہیں اور ان کا نفع عام ہے، اسی طرح قرآن پاک کی دعائیں بھی کسی خاص ترتیب کے بغیر پڑھی جاسکتی ہیں اور قبول ہوتی ہیں، لیکن صوفیہ کے اذکار و اشغال کا فائدہ جب ہی ہوتا ہے جب اسے مخصوص طریقے سے مقررہ تعداد میں پڑھایا جائے اور اس مخصوص طریقے میں چونکہ احوال و کیفیات کا ظہور بھی ہوتا ہے، لہٰذا اس کو اس کی کامیابی کے لیے مستقل نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے جو صرف شیخ طریقت ہی کرسکتا ہے۔‘‘ [1] آپ مذکورہ بالا عبارت کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو واضح کرکے عند اللہ ماجور ہوں۔ جواب:… اللہ تعالیٰ نے رسولِ اسلام محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری حج میں جس کو ’’حجتہ الوداع‘‘ کہتے ہیں اسلام کی تکمیل کا اعلان فرمادیا، ارشاد ربانی ہے: ﴿ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾ (المائدہ:۳) ’’آج وہ لوگ تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں جنھوں نے کفر کی روش اختیار کی ہے لہٰذا تم لوگ ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے
[1] ص : ۱۰۱۔۱۰۲.