کتاب: روشنی - صفحہ 19
((بینا أنا نائم رأیت الناس عُرِضوا علی وعلیہم قمُصٌ، منہا ما یبلغ الثدیّ و منہا ما یبلغ دون ذلک و مرَّ علی عمرُ بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرُّہُ قالوا: ما أولتہ یا رسولَ اللّٰہِ؟ قال: الدین۔)) [1] ’’اس حال میں کہ میں سویا ہوا تھا میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے گئے اور سب کے اوپر قمیصیں تھیں، جن میں سے بعض کی قمیص چھاتی تک پہنچتی تھی اور بعض کی اس سے نیچے تک اور میرے سامنے سے عمر بن خطاب گزرے جو اپنی پہنی ہوئی قمیص گھسیٹ رہے تھے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس خواب کی کیا تفسیر کی ہے؟ فرمایا:’’ دین۔‘‘ اس حدیث میں قمیص سے مراد صاحب قمیص کا دین ہے اور قمیصوں کے چھوٹی اور بڑی ہونے کا مطلب ہے کہ لوگ دین و ایمان کے اعتبار سے ایک درجے پر نہیں ہیں اور حضرت عمر کی قمیص کی اتنی لمبی ہونے سے کہ وہ اسے گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہے تھے، یہ مراد ہے کہ وہ دین و ایمان کے معاملے میں نہایت اعلیٰ مقام اور درجہ پر فائز تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام زہری کی یہ حدیث حکیم ترمذی نے ایک دوسری سند سے روایت کی ہے جس میں آیا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو لوگ پیش ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص ناف تک تھی، بعض کی اس کے گھٹنے تک اور بعض کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچ رہی تھی۔ ‘‘[2] خواب میں سر سبز و شاداب باغ مکمل اسلام کی تمثیل ہے مشہور تابعی قیس بن عُباد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ میں ایک حلقہ میں تھا جس میں سعد ابن مالک اور ابن عمر بھی تھے، پھر وہاں سے عبداللہ بن سلام گزرے تو ان لوگوں نے کہا: یہ اہل
[1] بخاری: ۰۲۰۰۸ مسلم: ۲۳۹۰. [2] فتح الباری ، ص: ۳۱۲۸، ج: ۳.