کتاب: روشنی - صفحہ 188
کیا جس شخص کی نگاہ میں اسلام کی تعلیمات ہوں گی اور بھولے سے بھی اس نے سیرتِ پاک کا مطالعہ کیا ہوگا وہ ایسا طرز عمل اختیار کرسکتا ہے جس کا ذکر ابومسلم خولانی کے حوالے سے فضائل اعمال کے ضمن میں کیا گیا ہے اور کیا یہ فی الواقع اسلامی عمل ہے جس کی بنیاد پر جنت کی امید کی جائے۔
پھر صحابہ کرام جیسی صالح اور پاکباز جماعت کے بارے میں یہ دعویٰ کہ ’’وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جنت کے سارے درجے وہی اڑا کر لے جائیں گے‘‘ کوئی صالح اور صحیح العقیدہ مسلمان کرسکتا ہے؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت شریفہ کے ذریعہ ہمیں عبادات کے جو طریقے دیے ہیں ان میں یہ من گھڑت راہبانہ شدت کہاں ہے؟ ارشاد نبوی ہے:
((إِنَّ الدِّینَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَّ الدِّینَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِینُوا بِالْغَدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِنَ الدُّلْجَۃِ۔))[1]
’’درحقیقت دین آسان ہے، اور کوئی شخص دین سے زور آزمائی نہیں کرتا مگر دین اس پر غالب آکر رہتا ہے، سیدھے رہو، میانہ روی اختیار کرو، خوش و خرم رہو، صبح و شام اور رات کے کچھ حصے سے مدد چاہو۔‘‘
یہ حدیث بلاغت نبوی کی شاہکار ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں غلو پسندی، شدت اور افراط سے منع فرمایا ہے اور ایک مسافر کی مثال دے کر یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح مسافر مسلسل سفر نہیں کرتا، بلکہ خوشگوار، ٹھنڈے اوقات اور کسی قدر تاریکی میں سفر کرتا ہے، باقی اوقات میں خود بھی آرام کرتا ہے اور اپنی سواری کو بھی آرام دیتا ہے، یہی حال راہِ دین کے مسافر کا بھی ہونا چاہیے، طاقت سے زیادہ اپنے اوپر مشقت ڈال لینا، نفلی عبادات کا خلافِ سنت طریقے پر اہتمام کرنا یہ سب ایسے کام ہیں جن کی وجہ سے دین میں غلو اور شدت کا
[1] صحیح بخاری ۳۹، صحیح مسلم : ۲۸۱۶.