کتاب: روشنی - صفحہ 187
اوپر نکاح و زواج کے مسئلے میں اسلامی حکم کا ذکر آچکا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے تجرد کی زندگی کو اپنی سنت سے اعراض قرار دیا ہے، اس کے باوجود یہ غیر اسلامی طرز عمل اور یہ عیسائی رہبانیت اور ہندوانہ ترکِ دینا صوفیا کے فضائل میں شمار کی جاتی ہے۔
ابویزید طیفور بن عیسیٰ بسطامی کا شمار اکابر صوفیا میں ہوتا ہے، فرماتے ہیں: میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنے کا ارادہ کیا کہ وہ مجھے کھانے اور عورتوں کے بوجھ سے بے نیاز کردے، پھر میں نے اپنے آپ سے کہا: میرے لیے یہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کروں جس کا سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے، پس میں نے اس سے یہ سوال نہیں کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے عورتوں کے بوجھ سے بے نیاز کردیا، یہاں تک کہ مجھے یہ پروا نہیں ہوتی کہ میرے سامنے عورت ہے یا دیوار۔ [1]
فضائل اعمال میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے غور سے سنیے:
’’حضرت ابومسلم خولانی نے ایک کوڑا اپنے گھر کی مسجد میں لٹکا رکھا تھا اور اپنے نفس کو خطاب کرکے کہا کرتے کہ اٹھ کھڑا ہو میں تجھے عبادت میں اچھی طرح گھسیٹوں گا یہاں تک کہ تو تھک جائے گا، میں نہیں تھکوں گا، اور جب ان پر کچھ سستی ہوتی تو اُس کوڑے کو اپنی پنڈلیوں پر مارتے اور فرماتے کہ یہ پنڈلیاں پٹنے کے لیے میرے گھوڑے کی بہ نسبت زیادہ مستحق ہیں۔ یہ بھی کہا کرتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یوں سمجھتے ہیں کہ جنت کے سارے درجے وہی اڑا کر لے جائیں گے، نہیں ہم ان سے ان درجوں میں اچھی طرح مزاحمت کریں گے تاکہ ان کو بھی معلوم ہوجائے کہ وہ بھی اپنے پیچھے مردوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔‘‘ [2]
یہ صوفیا کس طرح دنیا کے لوگ ہیں، کیا یہ کتاب و سنت کا مطالعہ نہیں کرتے، کیا یہ کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک نہیں پڑھتے، کیا ان کے علم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالاتِ زندگی نہیں ہوتے۔
[1] رسالہ قشیریہ، ص ۳۹۶.
[2] ص ۴۳۰۔ ۴۳۱، ج ۲.