کتاب: روشنی - صفحہ 185
پیدا ہوتے ہی اس کا گلا گھونٹ دیا اور اپنی سیرت پاک اور طریقۂ عبادت کی مثال دے کر یہ اعلان فرمادیا کہ یہ میری سنت اور میرا طریقہ نہیں ہے لہٰذا اس طریقے پر چلنے والا کسی بھی دین سے تعلق رکھتا ہو، اس دین و شریعت سے تعلق نہیں رکھتا جس کو دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کو عبادت کرنے کے جس طریقے کی تعلیم دی ہے اس کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ تھے اور آپ کے بعد پیدا ہونے والے وہ تمام لوگ اس کے مخاطب ہیں جو امت مسلمہ سے تعلق رکھیں گے، حدیث پاک کے الفاظ ہیں: ((یَا عَبْدَاللَّہِ! أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّکَ تَصُومُ النَّہَارَ وَتَقُومُ اللَّیْلَ؟ فَقُلْتُ بَلَی یَا رَسُولَ اللَّہِ! قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الدَّھْرَ، صَوْمُ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ من کل شہر صوم الدہر کلہ صم کل شہر ثلاثۃ أیام واقراء القرآن فی کل شہر، قلت انی اطیق اکثر من ذلک قال: صم افضل الصوم صوم داؤد، صیام یوم وإفطار یوم واقرأ فی کل سبع لیال مرۃ ولا تزد علی ذلک۔)) ’’اے عبد اللہ! کیا مجھے یہ اطلاع نہیں ملی ہے کہ تم دن کو روزے رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تم یہ طرز عمل اختیار نہ کرو، روزہ بھی رکھو اور روزہ نہ بھی رکھو، رات کو تہجد بھی پڑھو اور سود بھی، اس لیے کہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے،