کتاب: روشنی - صفحہ 184
وَأُصَلِّی وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی۔))[1]
’’تین افراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال معلوم کرنے کی غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے گھروں کو آئے اور جب ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا تو ایسا لگا کہ انھوں نے اس کو کم تصور کیا، اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری کیا نسبت؟ اللہ نے تو آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا: میں تو پوری رات نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا روزے کے بغیر نہ رہوں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو فرمایا: کیا تمہی وہ لوگ ہو جنھوں نے ایسا اور ایسا کہا ہے؟ اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ کی خشیت رکھتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں سو جو کوئی میرے طریقے سے اعراض کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
غور فرمائیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات رات بھر عبادتیں کرنے اور نماز یں پڑھنے اور ہمیشہ روزہ رکھنے اور شادی نہ کرنے اور تجرد کی زندگی گزارنے کو اپنی سنت اور طریقے سے اعراض قرار دیا ہے اور یہ اعلان فرمادیا ہے کہ میری سنت سے اعراض کرنے والا مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، اور مجھ سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے اور جس شخص کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت نہ ہو وہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور اسلام سے نسبت رکھنے کا اس کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
درحقیقت دینداری کا یہ غیر اسلامی تصور ’’امت مسلمہ‘‘ کے وجود کے لیے زہر قاتل تھا یہ عیسائی رہبانیت اور ہندوانہ مذہبیت کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصور کے
[1] صحیح بخاری ۵۰۶۳، صحیح مسلم ۱۴۰۱.