کتاب: روشنی - صفحہ 182
’’اور رسول جو کچھ تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو درحقیقت اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و حدیث کی شکل میں جو چیزیں دی ہیں ان کو لے لینے کا مطلب ان پر عمل کرنا اور ان کو سرچشمہ رشد و ہدایت بنالینا ہے اور جن چیزوں سے منع فرمادیا ہے ان سے باز رہنا ہے اور واتقوا اللہ کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و اوامر کی بجا آوری کرکے اور آپ کی منہیات سے اجتناب کرکے اس کی سزا سے بچنے اور محفوظ رہنے کا ذریعہ اور وسیلہ اپناؤ اور یہ احساس تمھارے اندر ہر وقت زندہ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے اور آپ کی نواہی کا ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ سخت اور عبرتناک سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ قرآن و حدیث کی شکل میں ہدایت نامے دے دیے اور حکم دے دیا کہ ان پر عمل کرو، بلکہ اسی کے ساتھ اس نے اپنے نبی کی سیرت پاک کو لوگوں کے لیے نمونہ عمل بنادیا۔ ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾ (الاحزاب:۲۱) ’’درحقیقت اللہ کے رسول کے اند رتم لوگوں کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہو۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس امید میں جی رہا ہے کہ مرنے کے بعد جب دوبارہ زندہ کیا جائے تو اس دوسری زندگی میں اس کا خالق و مالک اور اس کا معبود اور رب اس سے خوش ہو اور جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے اپنے دل کو معمور کیے ہوئے ہے، اس کا یہ فرض ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو اپنے لیے نمؤنہ خیر و بھلائی بنائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سنت پر عمل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر آخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کی اس کی امید کا کوئی اعتبار نہیں اور جس چیز کو وہ ذکر الٰہی سمجھ رہا ہے وہ اس کے اعمال