کتاب: روشنی - صفحہ 180
کیا ایسے سادہ لوح اور خضر کی ملاقات کے متمنی لوگوں کے سامنے شیطان انسانی شکل میں ظاہر ہوکر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں خضر ہوں؟
مثال کے طور پر مشہور صوفی بزرگ ابراہیم بن ادھم کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ: ’’انھوں نے جنگل میں ایک آدمی کو دیکھا جس نے ان کو اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم سکھایا، اس کے بعد انھوں نے اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی تو خضر علیہ السلام کو دیکھا، جنھوں نے ان سے کہا کہ تمھیں اسم اعظم میرے بھائی داؤد نے سکھایا ہے۔‘‘[1]
علامہ قشیری نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس واقعہ کی خبر ان کو ابوعبد الرحمن سلمی نے دی ہے ابوعبد الرحمن سلمی قرآن کے مشہور قاری گزرے ہیں، وہ ثقہ تھے قشیری کو بھی ثقہ مان لیتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ قرآن اور صحیح احادیث میں اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصراحت اور متعین طور پر اللہ تعالیٰ کے کسی نام کو اسم اعظم نہیں قرار دیا ہے، بلکہ بعض صحابہ سے اللہ تعالیٰ کے چند اسمائے حسنیٰ سن کر یہ فرمایا ہے کہ اس نے اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی، اور ایک بار سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۶۲ اور سورۃ آل عمران کی دوسری آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔[2]
غور کا مقام ہے کہ اللہ کے محبوب نبی اور بندے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جان نثار صحابہ کو اسم اعظم نہیں بتایا، مگر ابراہیم بن ادھم کو جنگل میں ایک غیر معروف شخص مل جاتا ہے جو ان کو اسم اعظم سکھاتا ہے اور وہ اس کو نہ صرف یہ کہ صحیح مان لیتے ہیں بلکہ اس کے ذریعہ دعا بھی کرتے ہیں اور اس کے معاً بعد ایک شخص نمودار ہوجاتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں خضر ہوں اور جس نے تمھیں اسم اعظم سکھایا ہے وہ میرے بھائی داؤد ہیں، اس طرح ایک کہانی تیار ہوجاتی ہے اور معرفت الٰہی اور وصول الی اللہ کی صفت سے موصوف جماعت اس کہانی کو لے اڑتی ہے اور اسم اعظم کا ورد شروع کردیتی ہے۔ کوئی اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کرتا کہ داؤد علیہ السلام
[1] ترمذی ۳۴۷۵، ۳۴۷۸۔ ابوداؤد ۱۴۹۳، ۱۴۹۴.
[2] نسائی سنن کبری ۱۷۶۶۶، ابن ماجہ ۳۸۵۷ ، ۳۸۵۵.