کتاب: روشنی - صفحہ 179
والے بعض غیبی امور کا علم عطا کیا تھا اور ان کو شرعی امور کا علم حاصل نہیں تھا، کیونکہ انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے بصراحت فرمایا تھا کہ مجھے اللہ نے جو علم دیا ہے وہ تم کو حاصل نہیں اور تم کو جو علم دیا ہے وہ میرے پاس نہیں، بلکہ ایک دوسری حدیث میں ہے جو علم تمھیں حاصل ہے اس کا جاننا میرے لیے مناسب نہیں اور جو علم مجھے حاصل ہے اس کا جاننا تمھارے لیے مناسب نہیں۔‘‘ [1] اب رہی ان کی شخصیت، ان کا حقیقی نام، ان کا نسب، ان کی زندگی اور موت، ان کی نبوت و ولایت اور لوگوں سے ان کی ملاقاتیں، چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوں یا صحابہ کرام سے یا ائمہ حدیث و فقہ سے یا صوفیا سے، اسی طرح ان سے منسوب دعائیں نمازیں اور دوسری عبادتیں تو ان سب سے متعلق جو روایات کتابوں میں متد اوّل ہیں اور صوفیا کے حلقوں میں زبان زدہیں سب جھوٹ اور باطل ہیں۔ علامہ نور الدین علی بن محمد، جو ملا علی قاری کے لقب سے مشہور ہیں تحریر فرماتے ہیں: ’’جن حدیثوں میں خضر اور ان کی زندگی کا ذکر آیا ہے وہ سب جھوٹ ہیں، اور ان کی زندگی سے متعلق ایک بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔‘‘[2] سوال یہ ہے کہ جب خضر علیہ السلام زندہ ہی نہیں ہیں تو لوگوں کی ان سے ملاقاتیں کس طرح ہوتی ہیں؟ لیکن چونکہ صوفیا انبیاء، اولیاء اور بزرگوں کی موت کے قائل نہیں ہیں اس لیے ان کے اس عقیدے کے بموجب خضر علیہ السلام سے ان کی ملاقات بعد از امکان نہیں ہے، پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جو لوگ ان سے ملنے اور ان کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ان کو کس طرح پہچانتے ہیں؟ یہ اس لیے کہ کسی صحیح حدیث میں ان کا کوئی حلیہ یا وصف نہیں بیان ہوا ہے۔ اگر اس سوال کے جواب میں وہ یہ کہیں کہ جس شخص سے وہ ملتے ہیں وہ اپنے آپ کو خضر بتاتا ہے، تو کیا اس کا یہ دعویٰ عقل و منطق کی رو سے اس کے خضر ہونے کی دلیل بن سکتا ہے،
[1] صحیح بخاری ۱۲۲، ۲۷۲۶، صحیح مسلم ۶۱۶۳. [2] الأسرار المرفوعہ ص ۴۲۲، حدیث نمبر ۱۱.