کتاب: روشنی - صفحہ 178
اسلام میں ولایت کوئی شرعی منصب نہیں ہے کہ اس سے موصوف کسی انسان کو بذات خود کسی دوسرے انسان کو کوئی شرعی حکم دینے کا اختیار حاصل ہوجائے، اس پر وحی الٰہی نازل نہیں ہوتی کہ اس کو اس کے شرعی احکام کا ماخذ قرار دیا جائے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ اللہ کے صالح بندوں کو کبھی کبھار کشف و الہام سے نوازا جاتا ہے، مگر جہاں کشف و الہام شرعی ماخذ نہیں ہے وہیں وحی الٰہی کی طرح اس کے من جانب اللہ ہونے کا کوئی یقین بھی نہیں ہے، بلکہ اس کا قوی امکان ہے کہ صاحب کشف و الہام جس چیز کو کشف و الہام سمجھ رہا ہے وہ شیطانی فریب ہو اور یہ امکان اس وقت قوی تر ہوجاتا ہے جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو ایسے عمل کا حکم دے جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں داخل تھا، رہے امت کے دوسرے تمام افراد تو ان سب پر اللہ و رسول کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کے سوا کوئی اور ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے، مختصر لفظوں میں امت کا کوئی بھی فرد شارع نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ قیامت تک ہوگا، جبکہ نظام الدین اولیاء نے نماز خضر، اس کے وقت اور اس میں پڑھی جانے والی سورتوں کا تعین کرکے شریعت سازی فرمائی ہے۔ پھر یہ خضر علیہ السلام کون سے بزرگ ہیں اور ان سے شرفِ ملاقات حاصل ہونے کی دین و شریعت میں قیمت کیا ہے؟ اگر مراد وہ خضر علیہ السلام ہیں جن کا ذکر سورۃ الکہف کی آیات ۶۰ تا ۸۲ کی تفسیر سے متعلق صحیح احادیث میں آیا ہے تو عرض ہے کہ ان کا ذکر اللہ کے ایک ایسے بندے کی حیثیت سے آیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت میں یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ جلیل القدر رسول اور نبی موسیٰ علیہ السلام کے سامنے بعض مخفی تکوینی امور سے پردہ اٹھا کر اہل ایمان کو یہ درس دیں کہ اس دنیا میں بعض امور جو انسانوں کی مرضی اور خواہش کے خلاف وقوع پذیر ہوتے ہیں ان میں ان کا ہی مفاد مضر ہوتا ہے، اس قصہ کے اختتام کے ساتھ ہی ان کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کے نام تک کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ ان کی شخصیت محل ذکر نہیں تھی۔ رہیں احادیث تو ان کے تتبع سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ ان کا لقب خضر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو انسانوں سے تعلق رکھنے