کتاب: روشنی - صفحہ 177
محروم رہے، ’’ایک غلبۂ حال اور دوسرے اپنی والدہ کے حقوق۔‘‘ (ص ۱۳۴) تو ان میں سے دوسری وجہ تو صحیح ہے رہی پہلی وجہ یعنی غلبۂ حال تو یہ صوفیانہ بڑ ہے اور اس مذموم صفت سے اس وقت تک لوگ موصوف نہیں ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ اس سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ نماز اویس قرنی ایک غیر شرعی اور صوفیا کی خود ساختہ نماز ہے جو باعث اجر و ثواب اور موجب برکات نہیں، بلکہ کتاب و سنت کی تعلیمات کی رو سے بدعت اور مردود ہے اور بدعت کا شمار گمراہی میں ہوتا ہے۔ ۸: نماز خضر: امیر علاء سنجری تحریر فرماتے ہیں: ’’دولت قدم بوسی حاصل ہوئی، جس وقت بندہ نے زمین بوسی کی آپ نے ازراہِ لطافت فرمایا کہ بعد نماز ظہر دس رکعتیں پانچ سلام سے پڑھا کرو اور ان میں دس سورتیں آخر قرآن شریف کی پڑھو، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اس نماز کا نام صلوٰۃ خضر ہے اور جو شخص پیوستہ اس نماز کو پڑھے گا اس کو حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات نصیب ہوگی۔‘‘ [1] محبوب الٰہی ذکر اللہ بالخیر نظام الدین اولیاء نے اپنے مرید امیر علا کو دس رکعت نماز خضر پڑھنے کی جو تلقین فرمائی اور اس کے پڑھنے والے کو خضر علیہ السلام کی ملاقات نصیب ہونے کی جو خوشخبری دی اس کا ماخذ کیا ہے! قارئین کرام کو اتنی بات تو معلوم ہوگی کہ کوئی بھی نماز اس کا نام، اس کی رکعتوں کی تعداد، ان میں پڑھی جانے والی سورتوں، اس کے وقت اور اس کے فضائل و برکات کا تعین کرنے کے مجاز صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کیونکہ آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے اور آپ پر اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی تھی اور یہی وجہ ماخذ تشریع تھی۔ سوال یہ ہے کہ نظام الدین اولیاء نے نماز خضر کی تعلیم کس حیثیت سے دی؟ نبی کی حیثیت سے دی؟ نہیں، کیونکہ وہ نبی نہیں تھے، ولی کی حیثیت سے دی؟ ممکن ہے مگر پہلی بات تو یہ کہ
[1] انیسویں مجلس، ص ۹۱.