کتاب: روشنی - صفحہ 176
تھے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا، ایمان لائے، لیکن اپنی والدہ کی رفاقت اور خدمت کی وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے اور آپ نے ان کا عذر قبول فرمایا، والدہ کے ساتھ ان کے حسن سلوک کی تعریف فرمائی، صحابہ کرام، خصوصاً عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ اگر وہ تمھارے پاس آئیں تو ان سے اپنے لیے استغفار کی درخواست کرنا‘‘ اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب ان سے استغفار کی درخواست کی اور انھوں نے ان کے لیے استغفار کیا بھی۔[1]
بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ’’مستجاب الدعا‘‘ فرمایا ہے یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو نوازتا ہے، مگر اس صفت سے موصوف ہونا یہ معنی قطعاً نہیں رکھتا کہ ایسا شخص دوسروں سے افضل ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ سے بھی افضل تھے۔
مشہور صوفی ابوالحسن سیّد علی بن عثمان ہجویری نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں ایک روایت سے استدلال کرتے ہوئے جو یہ لکھا ہے کہ قبیلہ قرن کا ایک اویس نامی آدمی ہے جو قیامت کے روز قبیلہ ربیعہ اور مضر کی بھیڑوں کے مقدار میری امت میں شفاعت کرے گا۔ (ص ۱۳۴) تو یہ روایت اولاً تو صحیح نہیں ہے۔ ثانیاً اس روایت کا ترجمہ ہے: ’’اویس کی شفاعت سے ربیعہ اور مضر قبیلے کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘
ایک دوسری روایت کا ترجمہ ہے:
’’ایک ایسے شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہے ربیعہ اور مضر سے زیادہ لوگ دوزخ سے نکلیں گے۔‘‘ [2]
تو یہ روایت مرسل بھی ہے اور اس میں اویس قرنی کا نام نہیں ہے اور اس کے راوی حسن بصری کا کہنا ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ یا اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہیں۔
ہجویری نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ اویس قرنی دو وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے
[1] صحیح مسلم ۲۵۴۳۔ ۶۴۹۰، ۶۲۹۱، ۶۴۹۲.
[2] الزہد، ص ۲۷۸، حدیث نمبر : ۲۰۱۰.