کتاب: روشنی - صفحہ 175
غورفرمایئے ایک تو نماز خود ساختہ، دوم ایک جلیل القدر تابعین کی طرف کی جوٹی نسبت، سوم اس کی برکات کی اس کو پابندی سے پڑھنے والا اَن پڑھ آدمی عالم فاضل بن گیا۔ اس خود ساختہ نماز کے بارے میں عرض ہے کہ اولا تو اس کی نسبت اویس قرنی سے صحیح نہیں ہے ، کیونکہ زبانِ نبوت ان کو خیر التابعین فرمایا ہے اور قرآن میں تابعین کو پہلع پہل ایمان والے مہاجرین و انصار کا متبع کہا گیا ہے اور اتباع بدعت اور نئی ایجاد کی ضد ہے، ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ﴾ (التوبہ:۱۰۰) ’’اور وہ مہاجر و انصار جنہوں نے ایمان لانے میں سبقت کی اور جنہوں نے حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے۔‘‘ لہٰذا جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین تابعی کا لقب دی اہو اس کے بارے میں یہ اعتقاد کہ اس نے اپنے لیے اور اپنے نام سے کوئی نماز ایجاد کر رکھی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے جو موجب کفر ہے۔ اور اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ انہوں نے اپنے لیے کوئی خاص نماز گھڑ رکھی تھی تو ان کا ایسا کرناا اللہ و رسول کے نزدیک مردود تھا جس کی پیروی خیر و برکت کی موجب نہیں موجب ہلاکت ہے اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ معمولی درجے کے تابعی بھی نہیں تھے، خیر التابعین ہونا تو دُور کی بات ہے اور اس سے ایک صحیح حدیث کی تکذیب لازم آتی ہے۔ دراصل صوفیا نے ’’اویس قرنی ‘‘ کا جو ہوا بنا رکھا ہے وہ ان کی ذہنی اختراع ہے اور ان کے فضائل و مناقب کے بارے میں صوفیا کے حلقوں میں جو روایات زبانِ زد اور متداول ہیں وہ سب جھوٹ کا پلند ہیں، ان کے فضائل و مناقب کے بارے میں وہی تین حدیثیں صحیح ہیں جو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ یمن کے رہنے والے