کتاب: روشنی - صفحہ 174
کی متابعت تو نہیں ہے ، البتہ طاعت مشائخ ضرور ہے، لیکن یہ بھی معلوم رہے کہ جس عمل یا عبادت کا ماخذ کتاب و سنت نہ ہو وہ بلندیٔ درجات کا ذریعہ نہیں، پستی ٔ درجات کا ذریعہ اور اللہ و رسول کی معصیت ہے جس کا انجام معلوم ہے۔ ۷۔ نمازِ اویس قرنی: پہلے اس من گھڑت اور مردود نماز کے بارے میں محبوب الٰہی کے فرمودات سنئے ، پھر اس کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالی جائے گی۔ شیخ علاء اکیسویں مجلس کے وقائع بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’…اس کے بعد گفتگو نماز اویس قرنی کے بارے میں ہوئی، آپ نے فرمایا کہ نمازِ اویس قرنی رجب کی تیسری ، چوتھی اور پانچویں تاریخ کو پڑھی جاتی ہے، بعدۂ فرمایا کہ بعضوں نے تیرہوں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ اس نماز کے لیے مقرر فرمائی ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ’’ایک روایت میں تئیسویں، چوبیسویں اور پچیسویں تاریخ کو اس نمازِ اویس قرنی کا پڑھنا آیا ہے۔‘‘ پھر اس جھوٹی نماز کی برکات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’مدرسہ کلاں میں ایک دانش مند مولانا زین العابدین نامی رہتے تھے، اچھے عالم تھے جو مسئلہ ان سے دریافت کیا جاتا تھا جواب شافی دیتے تھے اور مباحثہ میں عالمانہ تقریر فرماتے تھے، ان سے ان کی تعلیم کے بارے میں سوال کیا گیا، جواب دیا کہ میں نے کسی سے نہیں پڑھا ہے اور نہ کسی کی شاگردی کی ہے۔ جوانی میں نماز اویس قرنی پڑھا کرتا تھا ، ایک روز بعد نماز دعا مانگی کہ الٰہی میں بوڑھا ہوا علم نہیں پڑھا، تو اپنی مہربانی سے دولت علم مجھے عطا فرما۔ حق تعالیٰ نے بہ برکت اس نماز کے علم کا دروازہ مجھ پر کھول دیا، اب جو مسئلہ مجھ سے دریافت کیا جاتا ہے میں بخوبی اس کی شرح کرتا ہوں۔‘‘ (ص:۸۵)