کتاب: روشنی - صفحہ 173
دیکھا ہے ، علاء فرماتے ہیں: ’’بروز جمعہ ۲۲؍شعبان ۷۰۷ھ دو لت قدم بوسی حاصل ہوئی مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ چھ رکعت نماز بین العشائین جس کے لیے تم کو کہا گیا ہے پڑھتے ہو یا نہیں؟ میں نے عرض کی کہ بصدق خواجہ پڑھتا ہوں ، اس کے بعد روزۂ ایام بیض کی بابت دریافت کیا، میں نے عرض کیا کہ روزۂ ایام بیض بھی رکھتا ہوں، اس کے بعد نمازِ چاشت کے متعلق پوچھا، میں نے عرض کیا کہ یہ بھی ادا کرتا ہوں، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ چار رکعت نمازِ صلوٰۃ سعادت بھی پڑھا کرو میں نے سر تسلیم خم کیا اور یہ سعادت دوسری سعادتوں کے ساتھ پیوست ہوئی والحمد للّٰہ علی ذلک …‘‘[1] نمازِ سعادت کے نام سے خواجہ ذکر اللہ بالخیر محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء نے اپنے مرید کو جس نماز کے ادا کرنے کی تلقین فرمائی تھی وہ نماز سعادت نہیں ، بلکہ نمازِ شقاوت ہے ، کیونکہ یہ دین میں نئی ایجاد ہے اور ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ نہیں مبغوض بندہ ہے!! ۶۔ نمازِ معکوس: علاء سنجری پانچویں مجلس کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’… اس کے بعد گفتگو طاعتِ مشائخ کے بارے میں ہوئی ، آپ نے ارشاد فرمایا کہ شیخ ابو سعید ابو الخیر قدس سرہ العزیز فرماتے تھے کہ جو کچھ مجھے حاصل ہوا متابعتِ نماز حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوا ، میں نے ہر نماز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی تھی پڑھی ایک وقت مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ معکوس بھی پڑھی ہے ، میں نے رسی اپنے پاؤں میں باندھی اور کنویں میں لٹک کر نمازِ معکوس ادا کی۔‘‘ [2] یہ صوفیا کس دنیا کی مخلوق ہیں اور ان کی عبادتوں کا ماخذ کیا ہے؟ نمازِ معکوس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] چوتھی مجلس، ص: ۶۲. [2] ص: ۶۳.