کتاب: روشنی - صفحہ 172
ہے جس کو ضعیف کہنے کی جرأت حافظ سیوطی اور عراق بھی نہ کر سکے، اور جب موضوع اور منکر روایتوں کے دلدادہ لوگوں نے دیکھا کہ اس کو صحیح ثابت کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے، تو انہوں نے یا تو یہ دعویٰ شروع کر دیا کہ اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو فضائل اعمال میں ضعیف حدیثوں پر جائز ہے، حالانکہ جن ائمہ نے ضعیف حدیثوں پر عمل کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے اس کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں مثلاً حدیث کی سند کذاب اور وضاع راویوں سے پاک ہو، جب کہ اس حدیث کا بنیادی راوی ولید بن مسلم کے مدلس التسویہ ہونے پر ائمہ حدیث کا اتفاق ہے اور امام مالک سے اس کے دس بے اصل حدیثوں کی روایت کرنے کا الزام بھی درست ہے اسی طرح اس کے شاگرد سلیمان بن عبدالرحمن دمشقی کی غفلت بھی مسلم ہے، ضعیف حدیث پر عمل کی دوسری شرط یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں مذکور عمل کی اصل صحیح حدیث سے ثابت ہو، اور یہاں حال یہ ہے کہ ’’ نماز حفظ قرآن‘‘ کا ذکر کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا ہے ، اس طرح ضعیف حدیثوں پر فضائل اعمال کے ضمن میں عمل کے جواز کی مرجوع رائے بھی ساقط ہو گئی۔ بدعتوں کے خوگر اور ان کو رواج دینے والوں نے وہ پرانا راگ بھی الاپا ہے جو وہ ہر بدعت اور خود ساختہ دعاؤں ، نمازوں اور اشغال کے حق میں الاپتے رہتے ہیں، یعنی تجربے سے اس نماز اور اس کی دعا کو صحیح پایا گیا، تو جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں اب دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ کسی حدیث کے صحیح ہونے اور اس پر عمل کے جائز ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت صحیح اور ثابت ہو ، محض تجربہ کسی عمل کو شرعی عمل نہیں بنا سکتا اور نہ کسی عمل سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کی صورت میں وہ عمل غیر شرعی ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کی جزا تو بیان کر دی ہے مگر اس نے اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ عقائد اور اعمال کا انتخاب تجربہ کے ذریعے کرو۔ ۵۔ نمازِ سعادت: اس من گھڑت اور جھوٹی نماز کے حق میں کوئی باطل روایت بھی نہیں ہے ، بلکہ اس کا نام میں نے محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء کے ملفوظات فوائد الفواد مرتبہ علاؤ الدین سنجری میں