کتاب: روشنی - صفحہ 170
بین عینی ، ولقد کنت أسمع الحدیث، فإذا رددتہ تفلتَ) وأنا الیوم أسمع الأحادیث، فاذا تحدثت بہا : لم اخرم منہا حرفا ، فقال لہ رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم عند ذلک: مؤمن… و ربِّ الکعبہ۔ یا ابا الحسن!…)) ’’جس وقت کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ اچانک آپ کی خدمت میں علی بن ابی طالب آگئے، اور عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ قرآن میرے سینہ سے نکل چکا ہے اور میں ۔اپنے آپ کو اس کے استحضار پر قادر نہیں پا رہا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو الحسن! کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں جن کے ذریعہ اللہ تمہیں اور اس کو جس کو تم یہ کلمات سکھاؤ نفع پہنچائے اور جو کچھ تم سیکھو اس کو تمہارے سینے میں جما دے؟ عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!مجھے سکھا دیجیے۔ فرمایا: جب جمعہ کی رات ہو اور تمہارے اندر اس کے آخری تیسرے پہر میں قیام کی طاقت ہو تو وہ حاضری کی گھڑی ہے اوراس میں دُعا قبول ہوتی ہے اور میرے بھائی یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا، میں تمہارے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا، فرماتے ہیں: یہاں تک کہ جمعہ کی رات آجائے، اور اگر تمہیں طاقت نہ ہو تو رات کے درمیانی پہر میں قیام کرو اور اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو رات کے آغاز میں قیام کرو اور چار رکعتیں اس طرح پڑھو کہ پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور سورۂ یس، دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الدخان ، تیسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور الم السجدہ، اور چوتھی رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور تبارک مفصل کی تلاوت کرو اور جب تشہد سے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کی حمد کرو او ر اچھی طرح اللہ کی ثناء بیان کرو اور میرے اوپر اور تمام نبیوں پر اچھی طرح درُود بھیجو اور مؤمنین اور مؤمنات اور اپنے ان بھائیوں کے لیے استغفار کرو جو تم