کتاب: روشنی - صفحہ 17
نہیں ہے اور اگر خواب بظاہر مسرت بخش او ر خوش کن ہو تو الحمد للہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے خیر کا باعث ہونے کی درخواست کرنی چاہیے اور فوراً کسی سے اس کو بیان کر کے اس کی تعبیر نہیں دریافت کرنی چاہیے ۔ ایک تو یہ طریقہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ہے ، دوم بعض تابعین کا آزمودہ ہے، جیسا کہ حضرت ابوسلمہ رحمہ اللہ کی صراحت ہے کہ’’ میں پہلے ایسے خو اب دیکھا کرتا تھا جو میرے اوپر پہاڑ سے زیادہ بھاری ہوتے تھے، لیکن جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے اس وقت سے میں ایسے خوابوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔‘‘[1] اور مذکورہ حدیثوں میں خواب کی تعبیر بتانے والوں کے لیے یہ درس مضمر ہے کہ وہ کسی سے کوئی خواب سنتے ہی اس کی تعبیر بتانے سے اجتناب کریں اور خوب غوروفکر کر کے اور خواب کی تہہ تک پہنچ جانے کے بعد ہی تعبیر بتائیں، کیونکہ یہ بہت ہی دقیق اور مشکل علم ہے اور اس کے نتائج بے حد سنگین ہوتے ہیں، لہٰذا کسی بھی خواب کی تعبیر بتانے سے معذرت کر دینا بلا سوچے سمجھے تعبیر بتانے سے بہتر اور خدا ترس علماء کے زیادہ شایانِ شان ہے۔ تعبیر رؤیا جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ تعبیر رؤیا یا خواب کی تعبیر کا علم بہت دقیق اور مشکل ہے۔ یہ درحقیقت ایک خاص اور خداداد علم ہے جس سے بہت کم لوگ سرفراز ہوتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ اچھے او ر سچے خواب بھی عام طور پر ناقابل فہم ہوتے ہیں اور ان کی تہہ تک پہنچنے کے لیے علم شریعت کافی نہیں ہوتا، کیونکہ اس مادی دنیا کی بہت سی چیزیں عالم بالا میں دوسری شکلوں میں ہوتی ہیں اور جب انسان سوتا ہے تو اس کی روح عالم بالا میں موجود بہت سی چیزوں کی سیر کرتی ہے اور وہ سونے والے کے ذہن میں مرتسم ہوتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر دودھ عالم بالا میں علم کی شکل میں ہے اور قمیص دین کی شکل میں وغیرہ۔ ذیل میں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خوابوں کا ذکر کروں گا، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خوابوں کا جن کی تعبیر سے ہماری یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
[1] مسلم: ۲۲۶۱۔ ۵۹۰۰.