کتاب: روشنی - صفحہ 167
ولید نے صرف امام اوزاعی ہی سے ضعیف اور موضوع حدیثیں نہیں روایت کی ہیں، بلکہ امام مالک سے بھی اس طرح کی بے اصل حدیثیں روایت کی ہیں، چنانچہ حافظ ابو عبیدہ آجری نے امام ابوداؤد کا یہ قول نقل کیا ہے کمہ: اس نے امام مالک سے ایسی دس حدیثیں روایت کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے، ان میں چار نافع سے مروی ہیں‘‘ اور امام ذہبی۹ نے اس زیر بحث روایت کو منکر ترین روایت قرار دیا ہے۔[1]
اس روایت کی سند کا راوی، سلیمان بن عبدالرحمن دمشقی جس نے و لید سے کی روایت کی ہے اس کی ثقاہت بھی مخرتلف فیہ ہے، امام دار قطنی کا قول ہے: ثقہ تھا، لیکن اس نے ضعیف راویوں سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں۔ [2]
امام ابن ابی حاتم اپنے والد کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’سچا اور روایت حدیث میں ٹھیک ہے، لیکن ضعیف اور مجہول راویوں سے روایت کرنے والوں کے سر فہرست تھا اور میرے نزدیک وہ اس درجہ غافل رہتا تھا کہ اگر کوئی حدیث گھڑ کر اس کو پیش کر دے تو وہ نہیں سمجھ سکتا تھا ، کیونکہ وہ تمیز کی صفت سے عاری تھا۔ ‘‘[3]
اسی وجہ سے امام ذہبی ’’حفظ قرآن‘‘ کی زیر بحث روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث اپنی سند کے غبار ہونے کے باوجود بے حد منکر ہے اور میرے دل میں اس کے بارے میں کچھ ہے۔ حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، شاید سلیمان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ہو اور یہ حدیث گھڑ کر اس پر پیش کر دی گئی ہو، جیسا کہ ابوحاتم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ اگر کوئی حدیث وضع کر کے اس کے سامنے پیش کر دیتا تو وہ سمجھ نہیں سکتا تھا۔‘‘[4]
[1] المیزان، ص: ۱۴۲، ج: ۷.
[2] المیزان، ص: ۳۰۲، ج:۳.
[3] الجرح والتعدیل، ص: ۱۲۵، ج:۴.
[4] المیزان، ص: ۳۰۲، ج: ۳.