کتاب: روشنی - صفحہ 166
’’میں اوزاعی کے مقام کو اس بات سے بلند کرنے کی غرض سے ایسا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس طرح کے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے۔‘‘
میں نے کہا: اگر اوزاعی نے ان لوگوں سے ان کے ضعیف اور منکر ہونے کے باوجود حدیث روایت کی ہو، اور تم نے ان کو سند سے خارج کر کے اوزاعی کی روایت کو ایسا بنا دیا کہ وہ تمام تر ثقہ راویوں کی روایت بن گئی تو اس طرح تو خود اوزاعی ضعیف ہو گئے‘‘ تو اس نے میری اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔‘‘[1]
امام دار قطنی نے بھی ولید بن مسلم کے بارے میں یہی لکھا ہے اور تدلیس کے ساتھ ’’ارسال‘‘ کا اضافہ بھی کیا ہے۔[2]
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ’’ولید بن مسلم ثقہ تھا اور کثرت سے تدلیس اور تدلیس التسویہ کرتا تھا۔[3]
میرے خیال میں جو راوی ’’تدلیس التسویہ‘‘ کا ارتکاب کرتا رہا ہو اس کو ثقہ کہنا امانت و دیانت کے خلاف ہے، اگرچہ اس کی روایت کردہ کچھ حدیثیں صحیح ہوں۔
امام ابن ابی حاتم اور امام ذہبی نے بعض علمائے حدیث کے حوالہ سے ولید کی قوت حافظہ، وسعت علی اور زہد و ورع کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ثقہ تھا اور نہ صحیحین میں اس کی روایت کردہ حدیثو ں کا منقول ہونا ہی اس کی ثقاہت پر دلالت کرتا ہے ، کیونکہ اولا تو امام بخاری اور امام مسلم نے جو حدیثیں اس سے روایت کی ہیں وہ دوسری صحیح سندوں سے روایت کرنے کے بعد کی ہیں اور اپنی بعد نظر اور اپنی بے مثال تحقیق سے ان کے تدلیس سے پاک ہونے کا یقین کر لینے کے بعد ایسا کیا ہے ثانیا اس کی روایت کردہ صرف چند حدیثیں صحیحین میں آئی ہیں۔
[1] میزان الاعتدال، ص: ۱۴۲، ج: ۷، ترجمہ: ۹۴۱۳۔ الباعث الحثیث، ص: ۴.
[2] الضعفاء والمتروکین، ترجمہ: ۶۳۲.
[3] التقریب، ترجمہ: ۷۴۵۶.