کتاب: روشنی - صفحہ 165
تدلیس اور فریب دہی بجائے خود ایک ایسا عیب یہ جس سے موصوف انسان لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور اس پر سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے ، اور اگر یہ عیب کسی ایسے انسان کے اندر پیدا ہو جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا راوی ہو تو پھر اس کی شناعت و نکارت دو چند ہو جاتی ہے ، کیونکہ اس طرح کا راوی ایسی باتوں یا ایسی عبارتوں کو حدیث کا نام دے کر لوگوں میں پھیلانے کا سبب بن جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نہیں نکلی ہیں۔ یوں تو تدلیس کی کئی قسمیں ہیں، لیکن ان میں اپنے برے نتائج کے اعتبار سے سب سے بُری اور تباہ کن تدلیس ’’تدلیس التسویہ‘‘ ہے جس کا ترجمہ ’’ برابر کر دینے اور درست کر دینے کی دھوکا دہی‘‘ کر سکتے ہیں۔ روایت حدیث کے عمل میں اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ ’’تدلیس ‘‘ کی اس مذموم صفت سے متصف راوی اپنی سند سے اپنے شیخ کے سوا دوسرے ایسے راوی یا راویوں کو حذف کر دے جو ضعیف اور ساقط الاعتبار ہوں، اس طرح سند کے تمام راوی ثقہ ہو جائیں یا ثقہ نظر آنے لگیں۔ ولید بن مسلم کو اس تدلیس میں نہ صرف یہ کہ مہارت حاصل تھی، بلکہ اس کے مسلسل ارتکاب سے وہ اس کا اس قدر عادی بن چکا تھا کہ اس کے دل میں اس کی سنگینی کا احساس بھی نہیں رہا تھا، چنانچہ امام صالح بن محمد جزرہ فرماتے ہیں: میں نے حافظ ہیثم بن خارجہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’میں نے ولید بن مسلم سے کہا کہ تم نے اوزاعی کی حدیثوں کو بگاڑ ڈالا ہے، اس نے پوچھا: کس طرح؟ میں نے کہا کہ تم ان کی روایت اس طرح کرتے ہو: اوزاعی سے روایت ہے او ر وہ نافع سے روایت کرتے ہیں … اوزاعی سے روایت ہے اور وہ زہری سے روایت کرتے ہیں … اوزاعی سے روایت ہے اور وہ یحییٰ سے روایت کرتے ہیں … جب کہ تمہارے علاوہ دوسرے راوی اوزاعی اور نافع کے درمیان عبداللہ بن عامر اسلمی اور اوزاعی اور زہری کے درمیان قرہ بن خالد کا ذکر کرتے ہیں، یہ سن کر ولید نے کہا: