کتاب: روشنی - صفحہ 162
مجہول ہے۔ (۲)اس نے قتادہ سے حدیث روایت کی ہے، کسی نے اس سے اس کے حدیث روایت کرنے کی صراحت نہیں کی ہے۔ جو سند اس قدر تاریک ہو کیا اس سے روایت کی جانے والی حدیث قابل اعتبار ہو سکتی ہے؟!! اس زیر بحث غیر شرعی نمازِ حاجت سے متعلق چوتھی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی نسبت سے بیان کی جاتی ہے۔ اس کی تخریج بھی اصفہانی نے الترغیب[1] میں درج ذیل سند سے کی ہے: محمد بن زکریا بصری سے روایت ہے ، کہا: ہم کو حکم بن اسلم نے خبر دی ، کہا: ہم کو ابوبکر بن عیاش نے ابوحُصین سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ: ’’میرے پاس جبریل کچھ دعائیں لے کر آئے اور کہا: جب آپ کو کوئی دنیاوی معاملہ پیش آجائے تو پہلے یہ دعائیں پڑھئے ، پھر اپنی حاجت کا سوال کیجئے…‘‘ اس جھوٹی روایت میں نمازِ حاجت کا اگرچہ کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ نماز حاجت ہی کے ضمن میں بیان کی جاتی ہے، جیسا کہ حافظ منذری نے الترغیب والترہیب میں کیا ہے، اس لیے اس پر بھی بحث ضروری خیال کی گئی تاکہ حجت تمام کی جائے۔ یہ روایت جیسا کہ میں نے عرض کیا جھوٹ او ر من گھڑت ہے جس کی اصل مصیبت محمد بن زکریاہے، جس کا لقب غِلابی ہے۔ اس کے بارے میں امام دار قطنی نے لکھا ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا۔[2] حکم بن اسلم قدریہ فرقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود سچے تھے۔ [3] رہے ابوبکر بن عیاش تو ائمہ حدیث کے مجموعی اقو ال کے مطابق وہ ثقہ تھے۔[4]
[1] ص:۳۲۷، ج:۳. [2] الضعفاء والمتروکین، ص: ۲۲۲، ترجمہ: ۴۸۵. [3] الجرح والتعدیل ، ص: ۱۲۷، ج: ۳، ترجمہ: ۲۸۲۱. [4] الجرح والتعدیل ، ص: ۴۱۰، ۴۱۱، ج: ۹، ترجمہ: ۱۷۲۲۰.