کتاب: روشنی - صفحہ 161
ہے اور مضاء جو ابن جارود دینوری ہے ، وہ بھی مشہور نہیں ہے۔ امام ابن ابی حاتم نے اس کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’وہ مشہور نہیں ہے اور سچا ہے‘‘ (۴۶۱،۴۶۲،ج:۸) واضح رہے کہ کسی راوی کا مشہور نہ ہونا اور صرف صدق گوئی سے موصوف ہونا اس کی ثقاہت کی دلیل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ امام ذہبی اور حافظ ابن حجر نے مضاء بن جارود دینوری سے حدیث روایت کرنے والوں میں اسحاق بن فیض کا نام نہیں لکھا ہے۔[1] مضاء بن جاردو دینوری کے بارے میں امام ابن ابی حاتم کے قول: ((لیس بمشہور، محلہ الصدق )) پر حافظ ابن حجر نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’میں نے اس کی ایک منکر خبر دیکھی ہے جس کی تخریج امام رافعی نے تاریخ قزوین میں حسن بن حسین بن ہبۃ اللہ کے ترجمہ کے ضمن میں کی ہے۔ رہا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مذکورہ حدیث روایت کرنے والا عبدالعزیز تو وہ بھی معروف نہیں ہے، امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: عبدالعزیز بن زیاد عمی بصری ولزان نے قتادہ سے حدیث سنی ہے، میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، وہ یہ بھی فرماتے تھے: عبیدا للہ بن سعید ابو قدامہ سرخسی نے اس کی بہتر تعریف کی ہے، اس کے پاس دو منقطع حدیثیں تھیں۔ میں نے اس کے بارے میں اپنے والد سے پوچھا تو فرمایا: وہ مجہول ہے۔ ‘‘[2] امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے: ’’عبدالعزیز بن سلمہ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے، مجہول ہے۔ اسی طرح عبدالعزیز بن زیاد عن قتادہ بھی ہے۔‘‘ [3] ان دونوں ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال سے دو چیزیں معلوم ہوئیں: (۱)عبدالعزیز
[1] المیزان، ص: ۴۴۱، ترجمہ: ۸۲۸۷. [2] الجرح والتعدیل ، ص: ۴۴۹، ج:۵، ترجمہ: ۹۱۲۰. [3] ص: ۳۶۵، ج: ۴، ترجمہ: ۵۱۰۸.