کتاب: روشنی - صفحہ 160
امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم تحریر فرماتے ہیں: ’’عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت کردہ حدیثیں باطل ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ، وہ ابن ابی اوفی کی حدیثوں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتیں اور اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ اس کی روایت کردہ بیشتر حدیثیں جھوٹ ہیں تو وہ جھوٹا شمار نہیں ہو گا۔‘‘[1] یاد رہے کہ پہلی روایت میں نمازِ حاجت کی ۱۲ رکعتوں کا ذکر ہے اوراس میں صرف دو رکعتوں کا۔ میں نے اوپر بعض اہل علم کے احترام میں اس کے موضوع ہونے کو ’’ اگر ‘‘ کہہ کر معلق رکھا ہے ورنہ حقیقت میں یہ بھی موضوع ہے۔ یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ دنیا کو کئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جس کو دن و رات کے کسی لمحے میں اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت اور ضرورت نہ ہو، پھر یہ کہنے کے کیا معنی کہ جس کو اللہ سے کوئی حاجت ہو؟ اگر یہ کہا جاتا کہ جس شخص کو اولادِ آدم کے کسی فرد سے کوئی ضرورت ہو تو کسی حد تک درست تھا؟ خود ساختہ نمازِ حاجت کی تیسری حدیث ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی نے الترغیب[2] میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس کی سند درج ذیل ہے: اسحاق بن فیض سے روایت ہے، کہا: ہم کو مضاء نے خبر دی ، کہا مجھ سے عبدالعزیز نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا: اے علی! کیا میں تمہیں ایک ایسی دعا نہ سکھاؤں کہ جب تم کو کوئی رنج و غم لاحق ہو تو اس کے ذریعے اپنے رب کو پکارو، تو اللہ کے اذن سے تمہارے لیے وہ دعا شرفِ قبولیت سے نوازی جائے اور تمہارا رنج و غم دُور ہو؟ تم وضو کرو اور دو رکعتیں نماز پڑھو اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرو، اور اپنے نبی پر درُود بھیجو اور اپنے لیے اور مومنین اور مومنات کے لیے استغفار کرو، پھر کہو: … اس کے بعد عا کے کلمات ہیں جن کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ اس سند میں اسحاق بن فیض نامعلوم شخص جس کا ذکر رجال کی کسی کتاب میں نہیں آیا
[1] ص: ۱۱۲، ج: ۷. [2] ص: ۵۳۴، ج:۲.