کتاب: روشنی - صفحہ 16
’’ جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے اچھا لگے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے ، لہٰذا اس کو چاہیے کہ اس پر اللہ کی حمد بیان کرے اور جب اس کے برعکس ایسا خواب دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو درحقیقت یہ شیطان کی طرف سے ہے ، لہٰذا وہ اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے، تو وہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( رؤیا المؤمن جزئٌ من ستۃ و أربعین جزئً ا من النبوۃ وہی علی رِجلِ طائر مالم یحدث بہا فاذا حدث بہا وقعت ، قال: وأحسَبُہ قال: ولا تحدث بہا إلا لبیبًا أو حبیبًا۔))[1] ’’ مومن کا خواب نبوت کے ۴۶ حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور وہ پرندے کے پاؤں پر معلق رہتا ہے جب تک خواب دیکھنے والا اسے بیان نہیں کرتا اور جب اسے بیان کر دیتا ہے تو وہ گر پڑتا ہے‘‘ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اسے صرف عقل مند آدمی یا محبوب شخص سے بیان کرے۔‘‘ اس حدیث میں خواب کی تعبیر کو پرندے کے پیر میں لٹکی ہوئی اور معلق شے سے تشبیہ دی گئی ہے جو معمولی سی غفلت یا جھٹکے سے گر پڑتی ہے ۔ اسی طرح خواب کی تعبیر اس کے بیان کرتے ہی وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔ اوپر نقل کردہ احادیث سے جو درس ملتا ہے وہ یہ کہ خواب دیکھنے والوں کو خواب کے بظاہر خوفناک ہونے کے باوجود خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ ناپسندیدہ خواب کے بعد اگر آنکھ کھل جائے تو بستر ہی پر بائیں طرف کروٹ بدل کر تین بار تھوک دینا چاہیے اور ((أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ)) پڑھ لینا چاہیے،تھوکتے وقت منہ سے تھوک نکلنا ضروری
[1] ابوداؤد: ۵۰۲۰۔ ترمذی: ۲۲۷۸، ۲۲۷۹۔ ابن ماجہ: ۳۹۱۴.