کتاب: روشنی - صفحہ 158
حاصل نہیں ہوتی، لیکن جب وہ غیر شرعی بلکہ مشرکانہ تعویذ گنڈوں کا سہارا لیتا ہے ، یا کسی پیر یا بزرگ کی قبر پر جا کر فریاد کرتا ہے تو اس کو شفا حاصل نہیں ہو جاتی؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ مشرکین بتوں سے یا ہندواپنے مندروں میں مورتیوں سے جو التجائیں کرتے ہیں، مرادیں مانگتے ہیں اور حاجتیں پیش کرتے ہیں ان میں سے بہت سی مرادیں اور حاجتیں پوری بھی ہو جاتی ہیں، تو کیا اس کی بنیاد پر شرک و بت پرستی درست ہے؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ اللہ کے صالح،نیک اور تقویٰ شعار بندوں میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اس دنیوی زندگی میں فقر و فاقہ میں مبتلا ہے، بیماریوں کی لپیٹ میں ہے اور ہر طرح کی راحت و آرام سے محروم ہے، مگراس کے برعکس مجرمین، معصیت کار، ظالم اور بدکار دادِ عیش دے رہے ہیں اور جو کاروبار بھی کرتے ہیں اس میں سو فیصد کامیاب رہتے ہیں؟ تو کیا اس کی بنیاد پر یہ دعویٰ درست ہے کہ نیکو کار نعوذ باللہ اللہ کے مبغوض بندے ہیں اور بدکار اس کے محبوب بندے ہیں؟!! درحقیقت یہ دنیا دار العمل ہے دار الجزا نہیں ہے، ایک مومن سے جو چیز مطلوب ہے وہ صرف یہ کہ وہ اپنے رب کے احکام بجا لائے اور اللہ کے احکام کا ماخذ صرف کتاب و سنت ہے اور کسی بھی عمل کی صحت کا معیار صرف یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت سے ثابت ہو اور اس کے علاوہ ہر عمل ، ہر عبادت اور ہر ذکر مردود ہے اگرچہ تجربے سے بظاہر اس کے اچھے نتائج نکلتے ہوں۔ آخر میں یہ واضح کردوں کہ اچھے اعمال اور کتاب و سنت سے ثابت عبادتوں اور ادعیہ و اذکار سے بظاہر کوئی اثر برآمد نہیں ہوتا تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ عنداللہ مقبول نہیں ہو رہی ہیں، وہ بلاشبہ مقبول ہو رہی ہیں، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ، البتہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کے مطابق اور ان کے دائرے میں قبول ہو رہی ہیں، اس لیے بعض کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور بعض کے نہیں۔ دوسری روایت، عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((من کانت لہ حاجۃ إلی اللّٰہ أو إلی أحد من بنی آدم،