کتاب: روشنی - صفحہ 157
زیر بحث جھوٹی روایت میں بیان کردہ نماز حاجت کے بارے میں بھی تجربات کا حوالہ دے کر اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بہت بڑا فریب ہے جس کی سنگینی اور اس کے نتائج بد پر روشنی ڈالنے سے قبل میں اس مسئلے میں امام شوکانی کا قول نقل کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں، فرماتے ہیں:
’’سنت محض تجربہ سے نہیں ثابت ہوتی اور کسی چیز پر عمل کرنے والا اپنے اس اعتقاد سے کہ وہ سنت ہے بدعتی ہونے سے نہیں بچ سکتا، اور کسی دُعا کی قبولیت اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ قبولیت کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی دُعا بھی قبول کر سکتا ہے جو سنت کے طریقے پر نہ کی جائے، کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ قبولیت دعا استدراج کے قبیل سے ہو۔‘‘ [1]
امام شوکانی نے جو کچھ فرمایا ہے وہ نماز حاجت کی موضوع اور جھوٹی روایت کی نکارت کے ضمن میں فرمایا ہے او ر برحق ہے لیکن عرض ہے کہ کسی غیر شرعی عمل کی صحت پر تجربات سے استدلال کے اُصول اور قاعدے کو اگر درست مان لیا جائے تو پھر توحید و شرک اور اوامر و نواہی کا درجہ ایک ہو جائے گا یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ قرآن و سنت میں کتنی ایسی دعائیں ہیں جن پر اللہ و رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عمل کرنے سے بظاہر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا، جب کہ کتنی من گھڑت دعائیں ایسی ہیں اور کتنے خود ساختہ اذکار و اشغال ایسے ہیں جن پر عمل کے نتائج کا دعویٰ صوفیا کے حلقوں میں کثرت سے کیا جاتا ہے، تو کیا اللہ و رسول کی بتائی ہوئی دُعائیں اور اذکارنعوذ باللہ مردود اور باطل ہیں؟ اور صوفیا کے من گھڑت اذکار و اشغال مقبول؟
پھر کیا ایسے واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے کہ ایک بیمار آدمی علاج کرواتا ہے اور بیماری سے شفا کے لیے شرعی طریقوں پر اور کتاب و سنت میں مذکور دعائیں مانگتا ہے اور اس کو شفا
[1] تحفۃ الذاکرین، ص: ۱۴۰.