کتاب: روشنی - صفحہ 155
’’تیرے عرش کے وہ مقامات جہاں عزت کو باندھا گیا ہے۔‘‘یہ کیا بات ہوئی؟ صاحب ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی حنفی تحریر فرماتے ہیں: ’’اور مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دُعا میں کہے: ((أسألک بمعقِد العز من عرشک)) اور اس مسئلے کے لیے دو تعبیریں ہیں: ایک تو یہی اور دوسری ’’مقعد‘‘ اور اس دوسری کے مکروہ ہونے میں خوئی شک نہیں ہے ، کیونکہ وہ ’’قعود‘‘ سے بنا ہے ، اسی طرح پہلی بھی ، کیونکہ اس سے اللہ کی عزت کے عرش سے علاقہ رکھنے کا تاثر ملتا ہے جو حادث ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ قدیم ہے۔‘‘ اوپر علامہ مرغینانی نے ((أسالک بمعقد العز من عرشک)) کے مکروہ ہونے کا جو حکم لگایا ہے وہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کا قول ہے، اسی وجہ سے آگے لکھا ہے کہ امام ابویوسف کے نزدیک ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں،پھر ان کے اس قول کی دلیل میں اسی جھوٹی روایت کا حوالہ دیاہے، اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے: ’’اور مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعا میں کہے: ’’بحق فلان یا بحق انبیائک و رسلک ‘‘ اس لیے کہ خالق پر مخلوق کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘[1] واضح رہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک ہر مکروہ حرام ہے، لیکن اس باب میں نص قاطع نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس پر لفظ حرام کا اطلاق نہیں کیا ہے اور امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔[2] معلوم ہوا کہ زیر بحث روایت اپنی سند سے پہلے اپنے متن کے اعتبار سے باطل اور مردود ہے۔ رہی اس کی سند تو وہ اپنے راوی، عمر بن ہارون بلخی کے کذاب اور متروک ہونے کی وجہ سے موضوع اور جھوٹ ہے، اس کے کذاب، متروک اور ناقابل اعتبار ہونے پر ائمہ جرح و
[1] ص:۵۸۳،ج:۴. [2] ص:۵۱۷،ج:۴.