کتاب: روشنی - صفحہ 154
لیے شرفِ قبولیت سے نوازی جائیں۔‘‘ کٹ حجتی کرنے والے اپنے فاسد خیال کے دفاع میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مذکورہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اس لیے ان کا منہ بند کرنے کے لیے ایک دوسری حدیث پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((استأذنت ربی فی آن استغفرلہا فلم یُؤذن لی…)) [1] ’’میں نے اپنے رب سے ان (ماں) کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے یہ اجازت نہیں دی گئی۔‘‘ مذکورہ حدیث ایک حدیث کا درمیانی فقرہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کی زیارت کے موقع پر فرمایا تھا اور جس کا تعلق مشرک والدین کے لیے مغفرت طلب کرنے سے ہے ، اس فقرہ میں وجہ استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں واحد متکلمن کا صیغہ استعمال فرمایا ہے ، لہٰذا استغفار کی یہ ممانعت آپ کے لیے خاص ہونی چاہیے۔ جب کہ علمائے اسلام کا اس امر پر یہ اتفاق ہے کہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ اس طرح رکوع و سجود میں بھی قرآن پاک نہ پڑھنے کا حکم عام ہے۔ اس روایت کے جھوٹ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس میں ((اسألک بمعاقِد العز من عرشک)) کی تعبیر آئی ہے جو کلامِ نبوت نہیں ہو سکتی جس کی تفصیل یہ ہے کہ مَعَاقِدْ مَعْقِد کی جمع ہے او ر معقِد عَقَد یعقِد سے ظرف مکان ہے اور عقد یعقد کے معنی ہیں باندھنا اور گرہ لگانا، اسی سے عُقْدہ بنا ہے جس کی جمع عُقَد آتی ہے، جس کے معنی ہیں ’’گرہیں‘‘ سورۃ الفلق میں ہے﴿النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ﴾ ’’گرہوں میں پھونکنے والیاں۔‘‘ مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں ((معاقد العز من عرشک )) کا مطلب ہے :
[1] صحیح مسلم: ۹۷۶.