کتاب: روشنی - صفحہ 151
رہی ’’ اوابین کی نماز‘‘ تو جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا اس کا وقت صحیح حدیث کے مطابق دوپہر سے پہلے اس وقت ہے جب دھوپ شدید ہو جائے اور تعبیر نبوی کے مطابق ریت کی تمازت سے اونٹ کے چھوٹے بچوں کے کھر جلنے لگیں۔[1] صحیح حدیث کی روشنی میں ’’ صلاۃ اوابین ‘‘ کے وقت کا تعین ہو جانے کے بعد اس مرسل روایت کا کوئی اعتبار نہیں رہ جاتا جس کے الفاظ ہیں: ((من صلی ما بین صلاۃ المغرب إلی صلاۃ العشاء فانہا صلاۃ الأوابین۔)) ’’جو مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان کوئی نماز پڑھے وہ نماز اوابین ہے۔‘‘ یہ روایت اولاً تو مرسل ہے، ثانیاً اس کی سند میں حیوہ بن شریح کے شیخ حمدی بن زیاد خراط۔ ابو صخر ۔ کی ثقاہت مختلف فیہ بھی ہے۔ [2] ایسی صورت میں نماز مغرب کے بعد ’’ اوابین‘‘ کے وجود پر اس سے امام شوکانی کا استدلال قابل قبول نہیں ہے ، اور ان کا یہ فرمانا کہ اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے، لیکن صحیح حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ’’اوابین کی نماز اس وقت ہے جب اونٹ کے چھوٹے بچے گرمی محسوس کریں‘‘اس کے خلاف نہیں ہے ۔کیونکہ دونوں نمازوں کے اوابین ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ [3] واضح رہے کہ مذکورہ مرسل حدیث کی روایت عبداللہ بن مبارک نے الزہد میں اور انہی سے ابن نصر نے القیام میں کی ہے۔[4] اور مرسل حدیث کا شمار ضعیف روایتوں میں ہوتا ہے۔ صوفیا میں ایسے بھی بہت سے لوگ گزرے ہیں جن کو حدیث کا علم حاصل تھا، لہٰذا ان کو معلوم رہا ہو گا کہ مغرب کی نماز کے بعد کسی نماز اوابین کا ذکر صحیح حدیث میں نہیں آیا ہے اور نہ
[1] صحیح مسلم: ۷۴۸. [2] میزان الاعتدال، ص: ۳۸۶، ج: ۲، ترجمہ: ۲۳۳۱. [3] نیل الاوطار، ص: ۵۱۵، ج: ۱ مردود ہے. [4] الضعیفہ، ص: ۱۳۳، ج: ۱۰، حدیث: ۴۶۱۷.