کتاب: روشنی - صفحہ 150
حافظ منذری نے یہ حدیث درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ’’ اس صالح کے بارے میں اس وقت مجھے نہ جرح کا کوئی علم ہے اور نہ تعدیل کا ‘‘[1]
حقیقت یہ ہے کہ صالح بن قطن کے اوپر کے راوی ، عثمان اور محمد بھی مجہول ہیں۔
صاحب تحفۃ الاحوذی محدث محمد بن عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے حافظ منذری کا مذکورہ قول نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’مجھے خود اس کے حالات نہیں ملے، لہٰذا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کو اس کے حال کا علم ہے۔‘‘[2]
مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعات نفل نما زسے متعلق اوپر جو دو روایتیں نقل کی گئی ہیں ان کی استنادی حیثیت واضح ہو گئی، مزید یہ عرض ہے کہ دونوں ناقابل اعتبار روایتوں میں اس نماز کو ’’ اوابین کی نماز‘‘ کا نام دیا گیا ہے ، اور کسی بھی عبارت کے بارے میں عموماً اور نماز کے بارے میں خصوصاً شرعی حکم یہ ہے کہ دن اور رات میں ممنوعہ اوقات کے علاوہ کوئی جتنی نفل نمازیں چاہے پڑھ سکتا ہے ، البتہ کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی خاص نماز ایجاد کرے، اپنی طرف سے کسی نفل نماز کی رکعتوں کا تعین کرے، اور اس کے خاص فضائل متعین کرے، کیونکہ ایسا کرنا شریعت سازی ہے جس کا حق صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا اور آپ کے وفات پا جانے کے بعد صرف انہی عبادتوں پر عمل کرنا جائز ہے جو کتاب و سنت میں بیان کر دی گئی ہیں ان سے باہر جانا کسی بھی حال میں اور کسی بھی مقصد کے لیے جائز نہیں ہے، جو ایساکرے گا وہ اللہ و رسول کا نافرمان شمار ہو گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مغرب کی نماز کے بعد کسی خاص نفل نماز کا صحیح احادیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ، چاہے وہ اوابین کی نماز ہو یا کوئی اور نماز اس باب میں جتنی بھی روایتیں کتابوں میں ملتی ہیں ان میں سے کسی کی بھی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح نہیں ہے۔
[1] ص: ۱۷۲، ج:۱، ضعیف الترغیب والتریب.
[2] ص: ۷۲۷، ج:۱.