کتاب: روشنی - صفحہ 148
۳۔ اگرسورج زیادہ بلند ہو جائے اور دھوپ کی تپش کافی تیز ہو جائے تو وہ آرام و راحت کا وقت ہوتا ہے ایسے واقت میں وہی خوش نصیب نفل نماز پڑھنے پر بطیب خاطر آمادہ ہوتے ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ سے رجوع ہوتے رہنے کا جذبہ جوان ہوتا ہے اسی وجہ سے اس وقت کی نماز کو ’’اوابین کی نماز‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
احادیث کی روشنی میں مذکورہ ناموں کی حامل اس نماز کی رکعتیں کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ ہیں اور متعدد احادیث میں اس نماز کا اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے وہ اسلام کے اعتدال پسند مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔
اس کے برعکس صوفیا کے حلقوں میں مروج و معومل ’’ نماز اوابین‘‘ اپنے مزاج اور اپنے فضائل و برکات کے اعتبار سے صوفیا کے انتہا پسندانہ ذوق و مزاج کی ترجمان ہے۔ ذیل میں ہم ایسی چند روایتوں کو نقل کر رہے ہیں جواس باب میں مشہور ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَکْعَات ، لم یتکلم بینہن بشیء عُدِلن لہ عبادۃ اثنتی عشرۃ سنۃ۔))
’’جس نے مغرب کے بعد اس طرح چھ رکعتیں پڑھیں کہ ان کے درمیان کوئی بات نہیں کی تو یہ چھ رکعتیں اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں گی۔‘‘
یہ روایت بے حد ضعیف اور منکر ہے۔ امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ابوہریرہ کی یہ حدیث ضعیف ( غریب) ہے جس کو ہم صرف زید بن حباب عن عمر بن ابی خثعم کی حدیث کے طور پر جانتے ہیں ، اور میں نے محمد بن اسماعیل کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکر الحدیث تھا ، انہوں نے اس کی شدید تضعیف کی ۔ (۴۳۵)
حافظ طبرانی نے المعجم الاوسط میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’اس حدیث کو یحییٰ بن ابی کثیر سے صرف عمر بن عبداللہ نے روایت کیا ہے جس میں زید بن حباب منفرد ہے۔‘‘ (۸۲۳)