کتاب: روشنی - صفحہ 146
کی نماز پڑھنے والے کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ، اور نظام الدین اولیاء نے اپنے کشف سے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ’’جس سال کوئی رغائب کی نماز پڑھے گا اس سال وہ نہیں کرے گا۔‘‘!! امام نووی نے ’’المجموع‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’الرغائب کے نام سے معروف نماز جو رجب کے پہلے جمعہ کی رات میں مغرب اور عشاء کے درمیان ۱۲ رکعتوں پر مشتمل پڑھی جاتی ہے، اسی طرح نصف شعبان کی رات جو نماز سو رکعت پڑھی جاتی ہے یہ دونوں نمازیں منکر بدعتیں ہیں۔ ’’قوت القلوب‘‘ اور ’’احیاء العلوم‘‘ میں ان کے ذکر سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ ان حدیثوں سے جو ان نمازوں کے بارے میں ان دونوں کتابوں میں منقول ہیں۔ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن ائمہ پر ان نمازوں کا حکم مشتبہ رہا اور انہوں نے ان کے مستحب ہونے کے بارے میں چند اوراق تحریر کر دیے ان کی باتوں سے بھی دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ ‘‘[1] ۲۔ نماز اوابین: نماز اوابین صحیح حدیث سے ثابت ہے ، لیکن صوفیا اور فضائل اعمال کے دلدادہ حلقوں میں صحیح حدیث سے ثابت نماز اوابین کا کوئی ذکر نہیں ملتا، کیونکہ اس میں اس نماز کے مبالغہ آمیز اجر و ثواب کا بیان نہیں ہے، رہیں وہ روایتیں جو بے حد ضعیف ، بلکہ منکر ہیں ان میں بیان کردہ اس نماز کا ارباب سلوک کے حلقوں میں بڑا چرچا ہے اور وہ پابندی سے یہ نماز خود پڑھتے ہیں اور دوسروں کو بھی پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پہلے میں صحیح مسلم میں مروی حدیث اور اس کا ترجمہ پیش کر دوں اس کے بعد اُن روایتوں سے بحث کروں جو اس مسئلے میں لوگوں میں زبان زد ہیں۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
[1] بحوالہ الابداع فی مضار الابتداع، ص: ۲۸۸.