کتاب: روشنی - صفحہ 143
اعتبار روایات بھی نہیں ہیں۔
۱۔نمازِ رغائب:
اس نماز کی صحت اور اس کے موجب اجر و ثواب ہونے پر جس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے اس کے الفاظ احیاء علوم الدین سے نقل کر رہا ہوں جس کا شمار تصوف کی امہات الکتب میں ہوتا ہے اور جو جھوٹی اور موضوع روایتوں سے پُر ہے۔
(( ما من أحد یصوم أول خمیس من رجب ، ثم یصلی فیما بین العشاء والعتمۃ اثنتی عشرۃ رکعۃ یفصل بین کل رکعتین بتسلیمۃ، یقرأ فی کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب مرۃ، وإنا انزلناہ فی لیلۃ القدر ثلاث مرات، وقل ہو اللّٰہُ احد اثنتی عشرۃ مرۃ، فاذا فرغ من صلاتہ صلی علَّ سبعین مرۃ، یقول: اللّٰہم صلی علی محمد النبی الأمی و علی آلِہ ، ثم یسجد ویقول فی سجودہ سبعین مرۃ: سبوح قدوس رب الملائکۃ ولاروح، ثم یرفع رأسہ ویقول سبعین مرۃ: رب اغفر وارحم وتجاوز عما تعلم إنک انت الأعز الأکرم، ثم یسجد سجدۃ اخری ویقول فیہا مثلَ ما قال فی السجدۃ الألی ، ثم یسأل حاجتہ فی سجودہ فانہا تقضی۔ قال رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم : لا یصلی أحد ہذہ الصلاۃ إلا غفر اللّٰہ تعالیٰ لہ جمیعَ ذنوبہ ولو کانت مثل زُبَدِ البحر وعدد الرمل ، دوزن الجبال ، و درق الأشجار، ویشفع یوم القیامۃ فی سبع مائۃ من أہل بیتہ ممن قد استوجب النار۔))
’’کوئی بھی شخص جو رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے ، پھر عشاء اور رات کی ابتدائی تاریکی کے درمیانی وقت میں ۱۲ رکعتیں اس طرح پڑھے کہ ہر دو رکعتوں