کتاب: روشنی - صفحہ 139
صحیح بخاری کی ایک دوسری حدیث میں ہے:
((أما یکفیک أن التوراۃ بیدیک وأن الوحی یأتیک یا موسی! إن لی علمًا لا ینبغی لک أن تعلمہ وإن لک علمًا لا ینبغی لی أن أعلمہ۔))[1]
’’کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تورات آپ کے پاس ہے اور آپ کے پاس وحی آتی ہے، اے موسیٰ! مجھے ایسا علم حاصل ہے جس کا جاننا آپ کے لیے مناسب نہیں اور آپ کو ایسا علم حاصل ہے جس کا جاننا میرے لیے مناسب نہیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ آپ منصب رسالت پر ہیں اور آپ کو بذریعہ وحی ہدایات مل رہی ہیں اور چونکہ رسول کی ذمہ داریوں میں اسرار کائنات کا بیان داخل نہیں ہے، لہٰذا آپ کے فرائض منصبی کے پیش نظر اسرار کائنات کا علم آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔
رہا میں تو مجھے چونکہ کائنات کے بعض اسرار کا علم دے کر یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ ان سے پردہ اُٹھا ؤں اس لیے شرعی احکام کا جاننا میرے لیے مناسب نہیں ٹھہرا۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت یہ صراحت کر رہی ہے کہ ان کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
((شیئٌ أمرت بہ أن أفعلہ إذا رأیتَہ لم تصبر۔)) [2]
’’مجھے ایک کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے جسے جب آپ دیکھیں گے تو صبر نہ کر سکیں گے۔ ‘‘
اس حدیث میں دو باتیں ہیں: ایک یہ کہ مذکورہ تینوں کام انجام دینے پر وہ مامور تھے دوم یہ کہ ان کے یہ کام شرعی احکام سے ٹکرائیں گے، اسی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام ان پر صبر نہیں کرسکیں گے ، کیونکہ کوئی رسول شریعت کا خون ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔
[1] صحیح بخاری: ۴۷۲۶.
[2] صحیح مسلم: ۶۱۶۵.