کتاب: روشنی - صفحہ 138
ہے ، کسی دوسرے نبی اور ولی کے ذریعہ نہیں، مزید یہ کہ خضر علیہ السلام کو شرعی علم حاصل بھی نہیں تھا، جس پر صحیح احادیث بصراحت دلالت کرتی ہیں چند حدیثیں اور ان کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں:
جب موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے اس ہدایت میں سے کچھ سکھا دیں جس کی تعلیم آپ کو دی گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا:
((إنک لن تستطیع معی صبرا ، یا موسی! إنی علی علم من علم اللّٰہ علمنیہ لا تعلمہ أنت و أنت علی علم علمکہ لا أعلمہ۔)) [1]
’’درحقیقت آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اے موسیٰ! مجھے اللہ کے علم میں سے ایسا علم حاصل ہے جو اس نے مجھے سکھایا ہے۔ آپ اسے نہیں جانتے اور آپ کو ایسا علم حاصل ہے جو اس نے آپ کو سکھایا ہے ، میں اسے نہیں جانتا۔‘‘
یہ حدیث صحیح مسلم میں ان الفاظ میں ہے:
((إنک علی علم من علم اللّٰہ علمکہ اللّٰہ لا أعلمہ وأنا علی علم من علم اللّٰہ علمنیہ لا تعلمہ۔))[2]
دونوں میں جو فرق ہے وہ الفاظ کی ترتیب میں اور بخاری کی روایت میں موسیٰ علیہ السلام کے علم کے ساتھ ’’ من علم اللّٰہ ‘‘ کا فقرہ نہیں ہے، اور یہ معلوم و معروف ہے کہ صحیح بخاری کے الفاظ زیادہ صحیح ہیں۔ بہر حال دونوں روایتیں اس امر میں صریح ہیں کہ خضر علیہ السلام کو جو علم حاصل تھا وہ علم موسیٰ علیہ السلام کو نہیں حاصل تھا اور یہ جاننا کسی خاص دقت نظر کا محتاج نہیں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا علم علم شریعت کے سوا کچھ اور نہ تھا اور جب خضر علیہ السلام کا علم اس علم سے مختلف تھا تو وہ لازماً کائنات کے بعض اسرار کا علم تھا جس کو ہم علم غیب بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ علم ان کو اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حاصل تھا ، ذاتی نہ تھا۔
[1] صحیح حدیث: ۱۲۲.
[2] صحیح مسلم: ۶۱۶۳.