کتاب: روشنی - صفحہ 137
مومن و متقی بندہ ہے، کوئی مافوق البشر اور ربوبیت کی صفات سے موصوف شخص نہیں ہے جیساکہ صوفیا کے حلقوں میں اس کی تصویر کشی کی جاتی ہے دوسرے لفظوں میں اللہ کا ہر مومن و متقی بندہ ولی ہے، اس وجہ سے عقیدہ و عمل کے اعتبار سے مخصوص اور ممتاز صفات کے حامل بندوں میں جن کو منعم علیہم قرار دیا گیا ہے اور جن کی راہ پر چلنے کی ہر مومن بندہ اپنی نمازوں کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتا ہے، ولی یا اولیاء اللہ کا ذکر نہیں ہے، ارشادِ ربانی ہے: ﴿ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا ﴾ (النساء: ۶۹) ’’جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، انبیاء، صدیقین، شہداء اورصالحین، کتنے اچھے ہیں یہ ساتھی۔‘‘ خضر علیہ السلام کی ولایت قرآن پاک اور صحیح احادیث میں خضر علیہ السلام کی نبوت یا رسالت کا اشارتًا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن نے تو ان کا نام تک نہیں لیا ہے، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کی شخصیت پیش نظر ہے ہی نہیں، بلکہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے قصے اور ان کے ہاتھوں انجام دیے جانے والے تینوں اعمال کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے اسرار کائنات کے بعض مخفی گوشوں کو بے نقاب کر کے اہل ایمان کو یہ درس دیا ہے کہ اگر اس دنیا میں بعض اُمور ان کی مرضی اور خواہش کے خلاف وقوع پذیر ہوتے ہیں تو ان میں ان کا مفاد ہی مضمر ہوتا ہے۔ خضر علیہ السلام کے تینوں کام شرعی نوعیت کے نہیں تھے اور نہ ہو سکتے تھے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر اور اولو العزم رسول تھے اور رسول اپنے وقت میں تمام شرعی علوم اور احکام کا مرجع اور اتھارٹی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو شرعی علوم اور احکام اپنے فرشتوں کے ذریعہ سکھاتا