کتاب: روشنی - صفحہ 136
’’بعد کی صدیوں میں ظاہر ہونے والے صوفیا کی زبانوں پر ((حَدَّثَنِیْ قَلْبِیْ عَنْ رَّبِیْ ))جیسی عبارتیں غالب رہتی ہیں‘ یعنی متبع رسول تو کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے اور میں کہتا ہوں کہ میرے دل نے میرے رب سے روایت کرتے ہوئے مجھ سے بیان کیا، یعنی ایساکہنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج نہیں ہے، یہی ہلاکت ، یہی الحاد اور فساد ہے۔ کیا اس کا دل، اس کا ذوق اور اس کے خیالات و آراء کو عصمت حاصل ہے ، کیا اس کے دل میں بھلے اور بُرے دونوں خیالات نہیں آتے اور اس کا دل صلاح و فساد دونوں کی آماج گاہ نہیں ہے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس کا دل غیر معصوم ہے اور غلطی اور خطا سے صرف وہ بات پاک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا جو اللہ کی کتاب میں آئی ہے جس نے یہ راہ اپنا رکھی ہے او ر کہتا پھر رہا ہے کہ میرے دل نے میرے رب کی نسبت سے مجھے خبر دی ، یا میرے شیخ نے مجھ سے ایسا اور ایسا بیان کیا ہے ، یا میرے شیخ نے ایسا اور ایسا فرمایا ہے‘‘اس نے دراصل شیطان کی راہ اپنا رکھی ہے، وہ رحمن کی راہ پر نہیں چل رہا ہے۔‘‘ [1] امام ابن القیم اور امام ابن باز کی وضاحتوں کی روشنی میں اس جوان کے دعوے کو رکھ کر اس پر غور کیجیے جس کو واقعہ نگار نے خصر علیہ السلام سے بڑا ’’ولی‘‘ قرار دیا ہے، میں ایک بار پھر اس جوان کے قول کو دہرا دیتا ہوں: ’’اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ ہیں جو خود رزاق سے سنتے ہیں۔‘‘ میں بار بار یہ واضح کر چکا ہوں کہ قرآن و حدیث اور اسلامی عقیدے کے مطابق’’ولی‘‘ اللہ تعالیٰ کا مومن و متقی بندہ ہے ، کوئی مافوق البشر اور ربوبیت کی صفت سے موصوف شخص نہیں ہے، جیسا کہ صوفیا کے حلقوں میں اس کی تصویر کشی کی جاتی ہے دوسرے لفظوں میں اللہ کا ہر
[1] منہاج الکرامہ فی شرح کتاب الاستقامہ، ص: ۱۰۲.