کتاب: روشنی - صفحہ 134
خصوصی معرفت سے نوازتا ہے، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، چنانچہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اللہ کے رسول نے آپ کو دوسرے لوگوں کے علاوہ کوئی خاص چیز سکھائی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: ((لا ، والذی فلق الحبۃ وبرأالنسمۃ، إلا فہما یوتیہ اللّٰہ عبدًا فی کتابہ۔)) [1] ’’نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے بیچ کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا ہے، سوائے اس فہم کے جو اللہ اپنے کسی بندے کو اپنی کتاب کے سلسلے میں عطا کرتا ہے۔‘‘ رہا اس شخص کا علم جو کتاب و سنت سے اعراض برتتا ہے اور ان کی پابندی نہیں کرتا تو یہ نفس، خواہش اور شیطان کی طرف سے حاصل ہونے والا علم ہے۔ یہ بھی لدنی تو ہے، لیکن کس کے پاس سے؟ دراصل علم لدنی رحمانی کی پہچان یہ ہے کہ وہ اس شریعت کے مطابق ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب عزوجل کے پاس سے لے کر آئے تھے۔‘‘ ’’علم لدنی کی دو قسمیں ہیں: لدنی رحمانی اور لدنی شیطانی اور دونوں کو پرکھنے کی کسوٹی وحی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔‘‘ رہا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خضر علیہ السلام کا واقعہ تو اس سے چمٹ کر اور تعلق جوڑ کر ’’علم لدنی‘‘ کے بدلے وحی سے بے نیازی کو جائز قرار دینا تو یہ الحاد، اسلام سے خارج کر دینے والا کفر اور موجب قتل گناہ ہے۔[2] علم لدنی کی طرح صوفیا کے حلقوں میں ’’ الہام‘‘ کو بھی بے حد اہمیت دی جاتی ہے اور اس کو ماخذ شریعت مانا جاتا ہے اس سلسلے میں اکابر صوفیا کی زبانوں پر یہ عبارت بہت طاری رہتی ہے: (( حَدَّثَنِیْ قَلْبِیْ عَنْ رَّبِیْ )) تو وہ حدیث اور بات کو ایسے شخص کی طرف منسوب کرتا ہے جس کے بارے میں اسے یہ علم حاصل نہیں ہوتا کہ اسی نے اس سے بات کی
[1] بخاری: ۱۱۱۔ مسلم: ۱۳۷۰. [2] مدارج السالکین، ص: ۳۷۶، ۳۷۷، ج: ۲.