کتاب: روشنی - صفحہ 133
ہے۔ ایسی صورت میں مذکورہ جوان پر شیطان کا سایہ ہے، ورنہ وہ ایسا دعویٰ نہ کرتا۔
مذکورہ جوان نے ایک محدث کی مجلس درس میں اپنی عدم شرکت کی جو وجہ بتائی وہ خارجی دنیا میں وجود نہ رکھنے کے علاوہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ جوان حدیث کے ماخذ شریعت ہونے کو نہیں مانتا، ایسا شخص مسلمان ہی نہیں ہے چہ جائیکہ وہ ولی ہو۔
علم لدنی
’’علم لدنی‘‘ کا ترجمہ : ’’میرے پاس کا علم۔‘‘ لدنی مرکب ہے ’’لدن‘‘ اور یائے متکلم سے۔ ’’لدن‘‘ عند کی طرح ہے، دو نوں کے معنی ہیں، پاس اور نزدیک ، لیکن ’’عند ‘‘ کے مقابلے میں ’’لدن‘‘ قربت اور نزدیکی پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔
’’علم لدنی‘‘ کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں آیا ہے، صوفیا نے سورۃ الکہف کی آیت نمبر ۶۵ میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ ’’ہم نے اس کو اپنے پاس سے ایک علم سکھایا ہے۔‘‘ سے اسے ایجاد کر لیا ہے اور اس کی بنیاد پر نام نہاد ’’اولیاء اللہ‘‘ کے حق میں یہ دعوے کرنے لگے ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست علم حاصل ہوتا ہے درآنحالیکہ اللہ اور ان کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اپنے اس دعوے کی تائید میں سورۃ الکہف میں مذکور خضر علیہ السلام کو ’’ولی‘‘ ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اپنا سارازور صرف کر ڈالا ہے اور پھر ان کے فضائل و مناقب، ان کے غیر معمولی اختیارات و تصرفات ، ان کی زندگی اور اکابر صوفیا سے ان کی ملاقاتوں کے بارے میں سیکڑوں روایات اور واقعات گھڑ کر لوگوں میں پھیلا دیے ہیں۔
’’علم لدنی‘‘ کی اگر کوئی قابل قبول توجیہ ممکن ہے تو اس کو الہام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جو دل میں کسی خیال یا بات کے ڈال دینے سے عبارت ہے، حافظ ابن القیم تحریر فرماتے ہیں:
’’علم لدنی عبودیت، پیروی ، اللہ کے ساتھ سچائی پر مبنی رویہ، اس کی مخلصانہ اطاعت، اس کے رسول کے نور ہدایت سے حصول علم کی جدو جہد اور ان کی مکمل پیروی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے، ایسے بندے کے لیے کتاب و سنت کے فہم کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو