کتاب: روشنی - صفحہ 132
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث کی روایت کرتے تو کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، آپ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے،یا آپ کا یہ اور یہ معمول تھا وغیرہ۔ جب تابعی حدیث کی روایت کرتا تو آپ کے ارشادات، اعمال، یا تقریر کو صحابی کے حوالہ اور نسبت سے اور تبع تابعی کے حوالہ یا نسبت سے بیان کرتا۔ وحی الٰہی، الہام اور القاء کی جو تفصیلات میں نے پیش کی ہیں ان سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے براہِ راست انبیاء علیہم السلام عموماً اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً نہ کوئی بات سنتے تھے اور نہ اس سے ہم کلام ہو سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم میں سے صرف موسیٰ علیہ السلام سے اس طرح بات کی ہے کہ انہوں نے اللہ کا کلام سنا، مگر اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ نہیں کیا۔ (النساء:۱۶۴۔ الاعراف:۱۴۳) ان تفصیلات کی روشنی میں عبدالرزاق محدث کی مجلس درس میں شریک صالحین پر یہ حکم لگانا کہ وہ رزاق کے عبد سے حدیثیں سن رہے ہیں۔ بالکل درست ہے اور اُن خوش نصیبوں کے مقام بلند پر دلالت کرتا ہے۔ رہا مذکورہ واقعہ کہ جوان کا یہ دعویٰ کہ وہ اور اس کے ساتھی رزاق یعنی اللہ تعالیٰ سے براہِ راست حدیثیں سنتے ہیں، ایک ایسا مبغوض اور گمراہ کن جھوٹ ہے جو ایک معمولی مسلمان کے مقام سے بھی فروتر ہے تو ایک ایسے صالح مسلمان یا ولی کو زیب کیسے دے سکتا ہے جس کے مقام پر خضر علیہ السلام رشک کریں، اگر خضر نام کے کسی بزرگ کا عالم واقعہ میں کوئی وجود ہو تو ۔ اوپر یہ بات آچکی ہے کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر سے عبارت ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ، لہٰذا اولاً: تو اللہ تعالیٰ سے اس کے سننے کا دعویٰ ہی بے معنی اور لغو ہے، ثانیاً: یہ دعویٰ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ نے حدیث کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور پھر اس کے مقرب بندے اس سے براہِ راست اسے سنتے ہیں؟!! اگر حدیث اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہوتی، پھر بھی قرآن و حدیث کی وضاحتوں کی روشنی میں اس سے براہِ راست اس کو سننا محال ہوتا، جیسا کہ سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۱ میں صراحت