کتاب: روشنی - صفحہ 131
اس آیت مبارک میں پہلی وحی سے مراد الہام، القاء اور دل میں کوئی بات ڈال دینا ہے، اس کا ذکر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں آیا ہے جس کو دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے، ابو نعیم اور طبرانی نے ابو امامہ سے ، بزار نے حذیفہ سے ، اور ابن ابی الدنیا نے اورحاکم نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: ((إنَّ روح القدس نفث فی روعی…۔))[1] ’’روح قدس نے میرے دل میں پھونکا۔‘‘ ﴿ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ﴾ (الاعراف:۱۴۴)’’پردے کے پیچھے سے‘‘ مراد یہ ہے کہ بندہ آواز تو سنے مگر بولنے والا نظر نہ آئے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو براہِ راست ہم کلامی کا شرف بخشا مگر انہوں نے متکلم، یعنی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور یہ ان کے لیے خاص تھا۔ ﴿ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ ﴾’’یا وہ کوئی فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے۔‘‘ سے مراد وہ صورت ہے جس کے ذریعہ تمام کتب آسمانی اللہ کے رسولوں پر نازل ہوتی ہیں۔ حدیث بھی وحی الٰہی ہے اور یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہوتی ہے، مگر صرف معانی اور مفاہیم کی صورت میں جن کو الفاظ کے قالب میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھالا ہے۔ حدیث کا اطلاق جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر ہوتا ہے وہیں حدیث سے مراد آپ کے افعال، آپ کی سیرت پاک اور آپ کے فضائل ہیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے الفاظ میں بیان کیے ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی صحابی کے کسی قول یا فعل کو دیکھ کر اس کا استحسان فرما دیتے، اس کو درست قرار دے دیتے تو آپ کا ایسا کرنا بھی حدیث میں شامل ہو جاتا جس کو اصطلاح میں ’’تقریر‘‘ کہتے ہیں۔
[1] القرطبی، ص: ۴۰، ج:۸.