کتاب: روشنی - صفحہ 130
صرف ضعیف کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ ان کی سندوں کا یہی تقاضا تھا، ورنہ ابدال سے متعلق تمام روایتوں کا متن من گھڑت اور اسلام کے توحیدی مزاج کے منافی ہے۔ ایمان بالرسالت کے تقاضے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کے لازمی تقاضوں میں سے ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکام و ہدایات صرف آپ پر نازل فرماتا تھا اور وہ بھی بذریعہ وحی یا الہام، جو احکام بذریعہ وحی نازل فرماتا تھا ان کو جبریل علیہ السلام لے کر نازل ہوتے تھے، اس وحی سے میری مراد کتاب اللہ اور قرآن پاک ہے جو صرف حالت بیداری میں جبریل علیہ السلام کے ذریعہ آپ پر نازل ہوتا تھا۔ رہی وحی خفی یا الہام تو وہ کسی بھی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہو سکتا تھا اور نازل ہوتا تھا، اسی وجہ سے آپ کا قلب مبارک کسی بھی حال میں سوتا نہیں تھا، حتی کہ نیند میں بھی نہیں۔[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی کا یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ وہ کسی بشر سے براہِ راست اور رو در رو بات کرے یا کوئی بشر اس سے براہِ راست بات کرے اور اس سے احکام وصول کرے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴾ (الشوریٰ:۵۱) ’’کسی بشر کے شایانِ شان یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے، الا یہ کہ اس کی بات اشارے کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ کوئی پیغامبر بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتاہے۔ بے شک وہ برتر اور حکیم ہے۔‘‘
[1] بخاری: ۱۱۴۷۔ مسلم: ۷۳۸.