کتاب: روشنی - صفحہ 129
ابدال کے وجود کا عقیدہ رکھنے والے عام طور پر ان کے وجود کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ابدال کا ذکر ائمہ اسلام کی کتابوں میں بہت ملتا ہے اور متعدد جلیل القدر ائمہ کی زبانوں سے یہ سنا گیا ہے کہ انہوں نے بعض بزرگوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کو ابدال کہا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابدال کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔
مذکورہ بالا استدلال کا جواب یہ ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعض ائمہ جیسے امام شافعی یا امام بخاری کی بعض تحریروں میں ابدال کا جو ذکر آیا ہے تو اس وجہ سے کہ اس دور کے صلحائے اُمت اور اصحاب زہد و توکل کے حلقوں میں یہ لفظ بکثرت بولا جاتا تھا اور اس سے وہ لوگ مراد لیے جاتے تھے جو صلاح و تقویٰ کی صفت سے بظاہر زیادہ موصوف ہوتے تھے۔ اس طرح ابدال کا لفظ صالحین کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ امور کائنات میں تصرف کی قدرت رکھنے والوں، مصائب و آفات میں لوگوں کی مدد کرنے والوں اور لوگوں کو نفع و ضرر پہنچانے والوں کے طور پر نہیں، کیونکہ یہ کھلا ہوا شرک ہے۔ اور یہ بات معلوم و معروف ہے کہ کسی لفظ یا اصطلاح یاتعبیر کے شہرت حاصل کر لینے، علماء اور ارباب فکر و دانش کی تحریروں میں رواج پا جانے اوران کی زبانوں پر اس کے جاری ہو جانے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس لفظ یا اصطلاح یا تعبیر کی کوئی دینی اور شرعی اصل ہے۔ مثال کے طور پر پچھلی کئی صدیوں سے علمائے دین کی تحریروں اور حلقوں میں’’ نور نبی‘‘ ، ’’نور محمدی‘‘ ، ’’لولاک‘‘ اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے ، عشق الٰہی ، معرفت الٰہی ، وصال ، فنا اور بقاء اور اس طرح کے نہ جانے کتنے الفاظ اور اصطلاحیں متداول ہیں، جب کہ نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی دینی اور شرعی اصل اور بنیاد ہے وہ اسلامی عقائد کی منافی بھی ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ مخصوص صفات سے موصوف اور ناقابل کمی و بیشی مخصوص تعداد میں اور کسی خاص ملک میں ابدال کے پائے جانے کا دعویٰ بصراحت صوفیانہ ذہنیت کی ترجمانی کرتا ہے اور ان کے حق میں جن صفات، تصرفات اور اختیارات کا اعتقاد رکھا جاتا ہے، وہ صوفیانہ عقائد سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے جس کو دینی اور شرعی رنگ دینے کی غرض سے کثیر تعداد میں روایتیں گھڑی گئیں جن میں سے چند ایک کو علمائے حدیث نے اس لیے