کتاب: روشنی - صفحہ 128
کون اُمور کائنات کی تدبیر کرتا ہے، وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ، کہو تو پھر تم مجھ سے ڈرتے کیوں نہیں؟ یہی اللہ تو تمہارا حقیقی رب ہے ، اور حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے؟ تم کدھر پھرائے جارہے ہو؟ ‘‘ ابدال سے متعلقہ روایتوں میں یہ صراحت نہیں ملتی کہ ان کا وجود کب سے شروع ہوا ہے، آیا یہ قبل از اسلام سے چلے آرہے ہیں یا اس اُمت سے ان کا تعلق ہے؟ اگر اس اُمت سے تعلق ہے تو ان کو افضل ترین اسلامی شہروں، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہونا چاہیے ، پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دونوں مقدس شہر تو ان کے وجود سے خالی ہیں اور عالم اسلام کے صرف ایک ملک شام یا شام اور عراق کو ان کے وجود سے سرفراز کیا گیا ہے، جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں صرف اس اُمت ہی کے نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کے بعد اولاد آدم کے افضل ترین نفوس قدسیہ کا وجود بابرکت رہا ہے اور خلفائے راشدین کے زمانے میں تو یہ نفوس قدسیہ مشرق و مغرب میں پھیل گئے تھے ، ایسی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت واقعہ یہ کس طرح فرما سکتے تھے کہ میری اُمت کے بہترین لوگ ہر صدی میں صرف پانچ سو رہیں گے اور ان کے ابدال یہ ہوں گے ۔ نہ پانچ سومیں کمی ہو گی اور نہ ۴۰ میں۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ اس اُمت میں خلفائے راشدین ہر اعتبار سے افضل ترین افراد تھے، بلکہ انبیاء علیہم السلام کے بعد قیامت تک ان کے درجہ اور مقام کا کوئی انسان پیدا نہیں ہو گا، لیکن یہ پاکیزہ ترین انسان بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔سوال یہ ہے کہ یہ ’’خیار امتی‘‘ اور ابدال کس طرح کی مخلوق ہیں اور کتاب و سنت کی کس دلیل سے یہ ثابت ہے کہ صدیوں پر صدیاں گزرتی رہیں گی اور ان کی تعداد نہ گھٹے گی اور نہ بڑھے گی۔ چونکہ ابدال کا وجود صوفیا کے نزدیک عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس زمانے میں ان کو وجود ملا؟ ان میں پہلا انسان کون تھا؟ کس آیت ، کس حدیث اور تینوں بہترین صدیوں کے کس اجماع سے اس تعداد میں ان کا وجود ثابت ہوتا ہے؟ کیونکہ کوئی عقیدہ انہی تینوں دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے نہ کہ جھوٹی اور من گھڑت روایتوں سے۔