کتاب: روشنی - صفحہ 127
اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ کسی عربی یا اُردو کی کتاب میں ابدال کے موضوع پر یکجا ۷ روایتیں نہیں ملیں گی اور وہ بھی ان کی سندوں کے ساتھ اور ان کے بارے میں ائمہ حدیث کی آراء کے ساتھ تو ان شاء اللہ قطعاً مبالغہ نہیں ہو گا۔ میں نے آغاز کلام میں عرض کیا تھا کہ ابدال کی حدیثوں کی سندوں کے ضعیف، منکر اور موضوع ہونے کے علاوہ ان کی تعداد کے ۴۰ یا ۳۰ میں محدود ہونے اور قیامت تک اس میں کسی کمی یا زیادتی کے نہ ہونے اور ان کے صرف شام ، یا شام اور عراق میں پائے جانے کے دعوے نے ابدال کی ان تمام روایتوں کو باطل قرار دے دیا ہے۔ پھر ان ابدال کے جو مناقب بیان کیے گئے ہیں کہ زمین اور اس کا نظام ان کی برکتوں سے قائم ہے ، بارش ان کے سبب سے ہوتی ہے ، بلائیں ان کے وجود کی برکتوں سے ٹلتی ہیں اور دشمنوں پر فتح و نصرت ان کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے، ان دعوؤں سے اولیاء کے بارے میں اس مشرکانہ عقیدے کی بو آتی ہے کہ نظام کائنات میں ان کو تصرف و اختیار حاصل ہے ، وہ لوگوں کی مشکلات کو ختم کر سکتے ہیں، ان کی مصیبتوں اور بلاؤں کو دُور کر سکتے ہیں اور وہ ہر وقت اور ہر جگہ لوگوں کی مدد کے لیے پہنچ سکتے ہیں، زندگی میں بھی اور وفات پا جانے کے بعد بھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت میں کھلا ہوا شرک ہے، اس شرک کا ارتکاب تو مشرکین و کفار بھی نہیں کرتے تھے، جیسا کہ قرآن پاک کی شہادت ہے: ﴿ قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (31) فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ ﴾ (یونس: ۳۱، ۳۲) ’’کہو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے، کون سمع و بصر کا مالک ہے ، اور کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور